قرآنِ مجید نے نبی ﷺ کی زندگی کے ذریعے عبادات، نیکی کے کام، اور میّت کے لیے نفع مند اعمال کی واضح راہنمائی فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے ہمیں صرف ان صدقہ جاریہ اور دعا اور قرض کی ادائیگی کا ثبوت ملتا ہے جن سے مرنے والے کو فائدہ ہوتا ہے، لیکن قرآن خوانی کر کے اس کا ثواب میّت کو پہنچانا قرآن یا سنت سے ثابت نہیں۔
نہ نبی ﷺ نے کبھی ایسا کیا، نہ صحابہؓ نے، حالانکہ وہ اپنے پیاروں کی موت پر بہت رنجیدہ ہوتے تھے۔ اگر قرآن کی تلاوت کا ثواب پہنچانا جائز اور باعثِ اجر ہوتا، تو وہ ضرور کرتے، کیونکہ دین کا ہر اہم پہلو ان کے عمل سے واضح ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے اصول بیان فرمایا
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اُس نے کوشش کی۔
(النجم 39)
اس آیت سے یہ اصول نکلتا ہے کہ عبادت کا فائدہ صرف اس شخص کو ہوتا ہے جو خود اسے انجام دے۔
نہ کسی حدیث میں، نہ صحابہ کے عمل میں یہ طریقہ موجود ہے کہ قرآن پڑھ کر میّت کو اس کا ثواب بخشا جائے۔ دین میں نیت سے نہیں، نص (واضح دلیل) سے کام لیا جاتا ہے۔
پس، اہلِ ایمان کے لیے راہ یہی ہے کہ وہ صرف انہی اعمال پر اکتفا کریں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، اور ان چیزوں سے بچیں جنہیں نبی ﷺ اور صحابہؓ نے نہیں کیا چاہے وہ ظاہری طور پر نیکی ہی کیوں نہ لگے۔اس لئے کہ دین مکمل ہو چکا ہے۔
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔
(المائدہ 3)