کیا تلاوتِ قرآن کا ثواب میّت کو پہنچتا ہے؟

قرآنِ مجید نے نبی ﷺ کی زندگی کے ذریعے عبادات، نیکی کے کام، اور میّت کے لیے نفع مند اعمال کی واضح راہنمائی فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے ہمیں صرف ان صدقہ جاریہ اور دعا اور قرض کی ادائیگی کا ثبوت ملتا ہے جن سے مرنے والے کو فائدہ ہوتا ہے، لیکن قرآن خوانی کر کے اس کا ثواب میّت کو پہنچانا قرآن یا سنت سے ثابت نہیں۔

نہ نبی ﷺ نے کبھی ایسا کیا، نہ صحابہؓ نے، حالانکہ وہ اپنے پیاروں کی موت پر بہت رنجیدہ ہوتے تھے۔ اگر قرآن کی تلاوت کا ثواب پہنچانا جائز اور باعثِ اجر ہوتا، تو وہ ضرور کرتے، کیونکہ دین کا ہر اہم پہلو ان کے عمل سے واضح ہوا۔

اللہ تعالیٰ نے اصول بیان فرمایا

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اُس نے کوشش کی۔
(النجم 39)

اس آیت سے یہ اصول نکلتا ہے کہ عبادت کا فائدہ صرف اس شخص کو ہوتا ہے جو خود اسے انجام دے۔

نہ کسی حدیث میں، نہ صحابہ کے عمل میں یہ طریقہ موجود ہے کہ قرآن پڑھ کر میّت کو اس کا ثواب بخشا جائے۔ دین میں نیت سے نہیں، نص (واضح دلیل) سے کام لیا جاتا ہے۔

پس، اہلِ ایمان کے لیے راہ یہی ہے کہ وہ صرف انہی اعمال پر اکتفا کریں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں، اور ان چیزوں سے بچیں جنہیں نبی ﷺ اور صحابہؓ نے نہیں کیا چاہے وہ ظاہری طور پر نیکی ہی کیوں نہ لگے۔اس لئے کہ دین مکمل ہو چکا ہے۔

آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔
(المائدہ 3)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا قرآن میں اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنے کی اجازت دی گئی ہے؟کیا قرآن میں اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنے کی اجازت دی گئی ہے؟

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صاف اور قطعی انداز میں واضح فرمایا ہے کہ صرف اُسی کو پکارا جائے، اور اللہ کے سوا کسی کو مدد کے لیے، حاجت

انبیاء کی دعوت میں عقیدہ و عمل کا کیا باہمی تعلق ہے؟انبیاء کی دعوت میں عقیدہ و عمل کا کیا باہمی تعلق ہے؟

قرآنِ حکیم کے مطابق انبیاء کی دعوت کا مرکز عقیدہ اور عمل کا باہمی ربط ہے۔ صرف ایمان کافی نہیں جب تک وہ عمل سے ظاہر نہ ہو، اور عمل

کیا غریب اگر کم خیرات کرے تو کیا قابل ملامت ہے؟کیا غریب اگر کم خیرات کرے تو کیا قابل ملامت ہے؟

نہیں، غریب اگر کم خیرات کرے تو ہرگز قابلِ ملامت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی نیت اور اخلاص کی قدر ہے، نہ کہ مقدار کی۔ شریعت میں