دراصل یہ دعا کرنا یا نہ کرنا بھی تقدیر میں درج ہے، لیکن یہ اندارج اللہ کے علم اور ارادے کے اندر ہی ہوتا ہے۔ دعا کرنا اللہ کے سامنے عجز و نیاز کا اظہار ہے، اور اللہ کی تقدیر کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ بندہ دعا کرے یا اللہ سے اچھا گمان کرے تو وہ اسکے ساتھ ویسے ہی معاملہ فرمائے گا۔
اللہ نے فرمایا
“يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُۥٓ أُمُّ ٱلْكِتَٰبِ”
“اللہ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے ثابت رکھتا ہے، اور اصل کتاب (لوحِ محفوظ) اسی کے پاس ہے۔”
(سورۃ الرعد: 39)
ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا میں جوان ہوں اور مجھے خوف ہے کہ مجھ سے زنا نہ ہوجائے اور مجھ میں نکاح کی طاقت نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ جواب نہ دیا، میں نے پھر یہی عرض کیا، آپ خاموش رہے، میں نے پھر عرض کیا، تب بھی آپ نے کچھ جواب نہ دیا، میں نے پھر اسی طرح عرض کیا، آخر آپ نے جواب دیا، ابوہریرہ جو کچھ تیری تقدیر میں تھا قلم (اسے لکھ کر) خشک ہوگیا، اب حکم الہٰی میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، چاہے تو خصی ہو یا نہ ہو۔
(صحیح مسلم:جلد سوم:تقدیر کا بیان:حدیث نمبر 2234)
اللہ سے دعا مانگنا، اور اسی پر توکل رکھنا ایمان کی علامت ہے۔ تقدیر کا یہ معنی نہیں کہ انسان بےعمل ہو جائے، بلکہ دعا، محنت، تقویٰ، میں انسان لگا رہے یہی اللہ کو مطلوب ہے۔
بحرحال دعا خود تقدیر کا حصہ ہوتی ہے، یعنی جسے اللہ دعا کی توفیق دے، اس کے حق میں خیر لکھ دیا گیا ہوتا ہے۔ بس اسے دعا کے زریعے اللہ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے اور تقدیر کے لکھے ہوئے میں تبدیلی ممکن نہیں ہے جو مشروط تبدیلی کا ذکر آیت میں مذکور ہے وہ اللہ کے علم سے ممکن ہے۔ ہمیں تقدیر پر ایمان لانا چاہئے اور اس میں الجھنا نہیں چاہیے۔ پس، ہمیں دعا پر یقین رکھ کر، اللہ پر توکل کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے، یہی توکل اور عبادت کا تقاضا ہے۔