نہیں، بغیر نیت کے کوئی بھی نیک عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا۔ اسلام میں ہرعمل کی اصل بنیاد نیت ہے، اور نیت ہی اس بات کو طے کرتی ہے کہ عمل عبادت ہے یا محض عادت۔
“إنما الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى”
“اعمال کی قبولیت نیت پر ہے، اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔”
(صحیح بخاری، حدیث: 1- صحیح مسلم، حدیث: 1907)
یہ حدیث دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ اگر نیت خالص اللہ کے لیے نہ ہو تو نماز، روزہ، صدقہ، حتیٰ کہ جہاد بھی مردود ہو جاتا ہے۔
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ
“انہیں حکم یہی دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔”
(سورۃ البینہ: 5)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اخلاص (نیت کی خالصی) کے بغیرعبادت کا کوئی وزن نہیں۔
محض عادتاً صلوۃ پڑھنا، بغیر اللہ کی رضا کے ارادہ کے روزہ رکھنا صرف طبی فائدے کے لیے صدقہ کرنا ریاکاری یا شہرت کے لیے یہ سب اللہ کے ہاں نامقبول ہیں، اور بعض اوقات گناہ بن جاتے ہیں۔
ہر عمل کی نیت اللہ کے لیے ہونا لازم ہے۔ نیت کے بغیر کوئی نیکی نہ عبادت شمار ہوتی ہے، نہ ہی مقبول۔ اس لیے ہر عمل سے پہلے دل میں اللہ کی رضا کا ارادہ اور اخلاص ضروری ہے، تبھی وہ عمل عنداللہ مقبول ہوگا۔