اسلام کی بنیاد خالص توحید پر ہے، اور توحید کا تقاضا ہے کہ حاجت روائی، مشکل کشائی، مدد، اور فریاد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے کی جائے۔ قرآن مجید کی روشنی میں کسی ولی، بزرگ یا نبی سے اس اعتقاد کے ساتھ حاجت مانگنا یا مشکل کشائی کی امید رکھنا کہ وہ از خود قدرت رکھتے ہیں یا اللہ کے اذن کے بغیر مدد کرسکتے ہیںیہ شرک میں شمار ہوتا ہے۔
وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًا
اور بے شک مساجد اللہ ہی کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔
(الجن 18)
قرآن بار بار تاکید کرتا ہے کہ مافوق الاسباب مدد صرف اللہ سے مانگی جائے۔ کوئی نبی، ولی، یا فرشتہ اللہ کے اذن کے بغیر نہ شفاعت کرسکتا ہے، نہ کسی کی مشکل آسان کرسکتا ہے۔
اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی سے دل میں یہ گمان رکھے کہ وہ از خود سن سکتا ہے، جان سکتا ہے، یا نفع و ضرر پہنچا سکتا ہے یہی شرکِ جلی ہے۔
وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا۟ دُعَآءَكُمْ ۖ وَلَوْ سَمِعُوا۟ مَا ٱسْتَجَابُوا۟ لَكُمْ
اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو، وہ تمہاری پکار نہیں سن سکتے، اور اگر سن بھی لیں، تو تمہاری بات کا جواب نہیں دے سکتے…
(فاطر 13-14)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
جب مانگو، تو صرف اللہ سے مانگو؛ جب مدد چاہو، تو صرف اللہ سے چاہو۔
(ترمذی 2516)
صحابہ کرامؓ نے کبھی کسی ولی، بزرگ یا نبی کی قبر پر جا کر ان سے مدد یا مشکل کشائی کی دعا نہیں مانگی۔
بزرگوں سے حاجت روائی یا مشکل کشائی کی امید رکھنا شرکِ جلی ہے اگر ان کے لیے اختیارات مانے جائیں جو صرف اللہ کے لیے مخصوص ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ پکارنا صرف اسی کو زیبا ہے، اور جو اس میں کسی اور کو شریک کرے وہ توحید کی جڑ کاٹتا ہے۔
لہٰذا جو ایاک نعبد و ایاک نستعین (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں) پر ایمان رکھتا ہے، وہ غیراللہ سے مدد کی امید رکھ ہی نہیں سکتا۔