کیا بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث الگ الگ فرقے ہیں؟

قرآنِ مجید نے دین کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی سخت ممانعت کی ہے، اور نبی کریم ﷺ کو ان لوگوں سے براءت کا حکم دیا ہے جو اپنے آپ کو گروہوں اور فرقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ فرمایا:

إِنَّ ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًۭا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِى شَىْءٍ ۚ إِنَّمَآ أَمْرُهُمْ إِلَى ٱللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ
بے شک جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور فرقے فرقے بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، پھر وہ ان کو بتا دے گا جو وہ کرتے تھے
(سورۃ الأنعام: 159)

یہ آیت واضح طور پر فرقہ بندی کو دین سے خروج قرار دیتی ہے۔ امت میں موجود فرقوں جیسے بریلوی، دیوبندی، اور اہل حدیث کا وجود اس آیت کے خلاف ایک عملی نمونہ ہے، جہاں ہر طبقہ اپنا نظریہ، امیر، مدرسہ، اور فقہ بنا کر دوسرے کو باطل، بدعتی یا کافر قرار دیتا ہے۔ یہ طریقہ نہ نبی ﷺ کا تھا، نہ صحابہؓ کا، اور نہ ہی قرآن کی تعلیم کے مطابق ہے۔

نبی کریم ﷺ نے امت کے تفرقے کی خبر دی اور نجات کا معیار بتایا۔ فرمایا:
إِنَّ أُمَّتِي سَتَفْتَرِقُ عَلَىٰ ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً
میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے
پوچھا گیا: وہ کون ہے؟ فرمایا مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي
جو اس طریقے پر ہیں جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں
(سنن ترمذی، حدیث: 2641)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات کسی مخصوص نام، مسلک یا امام کے ساتھ نہیں، بلکہ صرف نبی ﷺ اور صحابہؓ کے فہم کے ساتھ مشروط ہے۔ آج کے فرقے اس حدیث کے بالکل برعکس عملی نظام اختیار کیے ہوئے ہیں، جہاں ہر جماعت خود کو نجات یافتہ اور دوسروں کو جہنمی سمجھتی ہے۔

قرآن نے مسلمانوں کو فرقہ واریت سے بچنے اور توحید پر جمع ہونے کی واضح ہدایت دی ہے:
وَٱعْتَصِمُوا۟ بِحَبْلِ ٱللَّهِ جَمِيعًۭا وَلَا تَفَرَّقُوا۟
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور فرقہ فرقہ نہ ہو جاؤ
(سورۃ آل عمران: 103)

“اللہ کی رسی” یہ قرآن ہے۔ اس آیت کا تقاضا ہے کہ سب مسلمان ایک ہی بنیاد پر جمع ہوں: یعنی اللہ کا کلام، اور رسول اللہ ﷺ کی سنت۔ مگر افسوس، آج ہر فرقہ اپنے امام، اپنے فتوے، اپنے فقہی اصول، اور اپنے امیر کو “دین” کا درجہ دے بیٹھا ہے۔

بریلوی، دیوبندی، اور اہل حدیث تینوں خود کو “حق پر” کہتے ہیں، مگر دوسرے کو باطل اور گمراہ۔ ان کے مدارس، مساجد، عیدین کے اجتماعات، فتاویٰ اور نکاح و جنازے تک ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ یہ وہی فرقہ واریت ہے جس سے قرآن نے روکا، اور جس کو نبی ﷺ نے جہنم کا راستہ قرار دیا۔

لہٰذا توحید کا تقاضا یہی ہے کہ ہم قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامیں، صحابہؓ کے فہم کو حجت مانیں، اور ہر قسم کے فرقے، گروہ، اور نام کو ترک کر کے مسلم کہلانے پر قناعت کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
هُوَ سَمَّىٰكُمُ ٱلْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ
اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے بھی
(سورۃ الحج: 78)

یہی صراطِ مستقیم ہے، یہی نجات کا راستہ ہے، اور یہی توحید کی دعوت ہے۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ – کا مفہوم کیا ہے؟یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ – کا مفہوم کیا ہے؟

يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ کا مفہوم ہے کہاے میری قوم! صرف اللہ کی عبادت کرو یہ جملہ قرآن مجید میں کئی انبیاء کی زبان سے

انبیاء و اولیاء سے دعا مانگنے کا عقیدہ توحید کے تصور سے کیسے ٹکراتا ہے؟انبیاء و اولیاء سے دعا مانگنے کا عقیدہ توحید کے تصور سے کیسے ٹکراتا ہے؟

اسلام میں توحید (اللہ کی وحدانیت) وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر سارا دین قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بارہا واضح کیا ہے