جی ہاں، بد اخلاقی سے پیش آنا شیطان کے غالب آنے کا ایک نمایاں حربہ ہے۔ قرآن و سنت سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ شیطان انسان کے اخلاق، رویوں، اور معاملات کو بگاڑنے کے لیے مسلسل کوشاں ہے، اور بدتمیزی، غصہ، سخت کلامی، حسد، تکبر، اور بدسلوکی جیسے رویے دراصل اسی کے وار ہوتے ہیں۔ فرمایا شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّۭ فَٱتَّخِذُوهُ عَدُوًّۭا ۚ
بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، لہٰذا اسے دشمن ہی سمجھو۔
(فاطر 6)
شیطان انسان کو صرف کفر کی طرف نہیں، اخلاقی بگاڑ اور روایتی شیطنت کی طرف بھی مائل کرتا ہے۔
غصے میں اکثر انسان زبان سے بدتمیزی، ہاتھ سے ظلم، اور دل سے بغض رکھتا ہے۔ یہ سب شیطان کے مقاصد ہیں۔
جھگڑے کروانا
اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ
بےشک شیطان یہی چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان شراب اور جُوئے کے ذریعہ عداوت اور بغض ڈال دے اور تمھیں اللہ کے ذکر اور صلوۃ سے روک دے تو کیا تم (ان ناپاک چیزوں سے) باز آنے والے ہو ؟
(المائدہ 91)
(شراب اور جوا کو بھی شیطان کے انہی مقاصد کا ذریعہ کہا گیا)
جب ہم بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں (چاہے گھریلو ہو یا معاشرتی)، تو دراصل ہم شیطان کے کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔
گالی گلوچ، بے ادبی، بدزبانی سے گفتگو یہ تمام اوصاف شیطانی کردار کی علامت ہیں، کیونکہ وہ اخلاق کی جڑ کاٹتا ہے۔ تعلقات توڑنا، دل توڑنا، تذلیل کرنا یہ سب بد اخلاقی کی صورتیں ہیں جو شیطان کو خوش کرتی ہیں۔
جبکہ اخلاق حسنہ شیطان کا توڑ ہیں
غصئ کا علاج وضو، خاموشی، لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہنا ہے۔
جھگڑے کا علاج درگزر، نرم لہجہ اختیار کرنا ہے۔
بدزبانی سے بچنے کا علاج اللہ کے ذکر کی کثرت، قرآن کی تلاوت اور آخرت کو یاد رکھنا ہے۔
تکبر کا علاج عاجزی اور خاکساری کو لازم کرلینا ہے۔
حسد کا علاج قناعت اختیار کرنا اور ہمیشہ اپنے سے نیچے ان لوگوں کو دیکھنا جو نعمتوں سے محروم ہیں۔
بحرحال بد اخلاقی صرف ایک سماجی کمزوری نہیں، بلکہ ایک شیطانی غلبہ ہے۔ ہر وہ موقع جب ہم بدتمیز، سخت، یا توہین آمیز بن جاتے ہیں، ممکن ہے شیطان ہمیں دبوچ چکا ہو۔ مومن کا فرض ہے کہ وہ ہر بدخلقی پر روحانی چوکس ہو جائے اور اسے نفس یا شیطان کی سازش سمجھے۔