قرآنِ مجید نے ہر قسم کی بدشگونی، نحوست اور توہمات کو باطل قرار دیا ہے۔ بدشگونی لینا دراصل اس عقیدے کو ظاہر کرتا ہے کہ کسی چیز، وقت، پرندے یا واقعے میں بذاتِ خود نفع یا نقصان دینے کی طاقت ہے۔ جب کہ یہ عقیدہ اللہ کی توحید کے خلاف ہے۔
توحید کا تقاضا یہ ہے کہ انسان یہ یقین رکھے کہ نفع و نقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو شخص کسی دن، جانور، یا آواز سے بدشگونی لیتا ہے، وہ حقیقت میں یہ مان رہا ہوتا ہے کہ ان چیزوں کو اللہ کے اذن کے بغیر بھی کچھ اختیار حاصل ہے اور یہی بات شرک کے قریب لے جاتی ہے۔
قومِ فرعون اور دیگر کافر اقوام کا یہی طریقہ تھا
فَإِذَا جَآءَتْهُمُ ٱلْحَسَنَةُ قَالُوا۟ لَنَا هَـٰذِهِۦ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌۭ يَطَّيَّرُوا۟ بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُۥٓ
جب ان کو بھلائی ملتی تو کہتے یہ ہمارے لیے ہے، اور جب کوئی مصیبت آتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے۔
(الاعراف 131)
نبی ﷺ نے واضح فرمایا
«الطِّيَرَةُ شِرْكٌ»
بدشگونی لینا شرک ہے۔
(ابوداؤد 3910)
بدشگونی دل کی کمزوری اور توکل کی کمی ہے، لہذا نفع و نقصان اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔
لہٰذا، نحوست کا عقیدہ، دنوں کو منحوس سمجھنا، پرندوں کی آواز سے بدفالی لینا یا کسی واقعے کو برا شگون سمجھنا۔ یہ سب شرک کی اقسام میں سے ہیں، کیونکہ یہ اللہ کی ربوبیت اور قدرت پر ایمان کے خلاف ہے۔
اہلِ ایمان کو حکم دیا گیا کہ
وَعَلَى ٱللَّهِ فَتَوَكَّلُوٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور اللہ ہی پر بھروسا کرو اگر تم ایمان والے ہو۔
(المائدہ 23)
پس، جو دل اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے، وہ کسی دن، آواز یا چیز کو نفع یا نقصان کا سبب نہیں سمجھتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہر چیز اللہ کے قبضے میں ہے۔ اور یہی اصل توحید ہے۔