نہیں، مروجّہ بارہ اماموں کا عقیدہ قرآن سے ہرگز ثابت نہیں۔ قرآنِ مجید نے صرف نبیوں کی امامت، خلافت، اور ہدایت کا ذکر کیا ہے، اور نبی محمد ﷺ کے بعد کسی معصوم امام یا بارہ مخصوص افراد کی وراثت کا کوئی ذکر قرآن میں موجود نہیں۔ یہ عقیدہ بعد کی اختراعات اور غیر اسلامی نظریات سے آیا ہے۔
قرآن نے نبیوں کو امام بنایا ہے
وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا
“اور ہم نے انہیں امام بنایا کہ وہ ہمارے حکم سے ہدایت دیں”
(سورۃ الانبیاء: 73)
یہ آیت ابراہیمؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ جیسے نبیوں کے بارے میں ہے، کسی غیر نبی یا بعد از نبی معصوم امام کا کوئی تذکرہ نہیں۔ لغوی معنی میں اگر کسی کو امام شمار کیا جائے تو اس میں قباحت نہیں ہے البتہ مروجّہ امامت یعنی ایک ایسا خاص مقام و مرتبہ کو ایک مخصوص نسل میں ہو اور اس میں خطا و نسیان کا وجود نہ ہو یا اس پر امت کے تمام اعمال پیش ہوتے ہوں وغیرہ ماننا خالص کفر و شرک ہے۔
نبی ﷺ کے بعد امت کا اجماع خلافت پر ہوا، کسی موروثی یا معصوم امامت پر نہیں
نبی ﷺ نے فرمایا:
“عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي”
“میری سنت اور میرے بعد خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے”
(سنن ابی داود، حدیث: 4607)
یہاں کسی بارہ معصوم امام کا ذکر نہیں۔
لہذا یہ ایک مابعدی، فرقہ وارانہ نظریہ ہے جو اسلامی توحید اور ختمِ نبوت کے منافی ہے۔ مسلمان صرف قرآن، سنت اور صحابہؓ کی اجماعی راہ پر چلیں، اور ہر موروثی یا معصوم امامت کے نظریے کو رد کریں۔