نہیں، ایک ہی صحیح حدیث پر متضاد عقیدے نہیں بن سکتے۔ “عقیدہ” ایمان کا سب سے بنیادی اور قطعی حصہ ہے، اور عقیدہ ہمیشہ ایک ہی حق پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر ایک حدیث صحیح ہے، تو اس سے صرف ایک ہی سچا عقیدہ اخذ کیا جا سکتا ہے باقی تمام متضاد مفاہیم تاویل، جہالت، یا گمراہی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
آپسی اختلاف ختم کرنے کے لئے ہی قرآن کا رہنما اصول ہے کہ
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ
“پھر اگر تم کسی معاملے میں اختلاف کرو، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ”
(سورۃ النساء: 59)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اختلاف کی صورت میں حل صرف اللہ اور رسول ﷺ کی وحی میں ہے اور وہ ایک ہی عقیدہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے، نہ کہ متفرق فہم، دونوں فریقین کو ٹھیک کہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
“ستفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، كلها في النار إلا واحدة”
“میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں ہوں گے سوائے ایک کے”
(سنن ابی داود، حدیث: 4597)
یہ حدیث دلیل ہے کہ حق صرف ایک ہی فہم میں ہے اور باقی سب گمراہی ہیں۔ اگر ایک ہی حدیث سے مختلف عقیدے بنیں تو یہ سب قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔
صحابہ کرامؓ نبی ﷺ سے کوئی بات سنتے، تو وہ سب اسی پر متفق ہوتا تھا، اسی لئے ان کے درمیان عقائد کے باب میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا تھا۔ نہ کسی صحابی نے اللہ کی صفات، قیامت، جنت و دوزخ، یا توحید کے بارے میں مختلف فہم اپنایا۔
ایمان کی بنیاد ظن یا تاویل نہیں، بلکہ وحی پر ٹھوس یقین اور صحابہ کرامؓ کے اجماعی فہم پر قائم ہوتی ہے۔