نہ ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے، نہ ختمِ قرآن جیسی رسم جائز ہے، کیونکہ یہ دونوں امور قرآن و سنت کے مطابق نہیں بلکہ خودساختہ بدعات میں سے ہیں، جن کی نہ نبی ﷺ نے تعلیم دی اور نہ صحابہ کرامؓ نے ان پر عمل کیا۔ یہ بعد کے لوگوں کی شریعت سازی ہے۔ فرمایا
أَمْ لَهُمْ شُرَكَـٰٓؤُا۟ شَرَعُوا۟ لَهُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنۢ بِهِ ٱللَّهُ
“کیا ان کے کچھ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں ایسے احکام مقرر کیے جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟”
(سورۃ الشوریٰ: 21)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ دین میں ایسے طریقے شامل کرنا جن کی اللہ نے اجازت نہ دی ہو بدعت اور گمراہی ہے۔
خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
من عمل عملاً ليس عليه أمرُنا فهو ردٌّ
“جو کوئی ایسا عمل کرے جس پر ہمارا (دینی) حکم نہ ہو، وہ مردود ہے۔”
(صحیح مسلم، حدیث: 1718)
نہ نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی کے لیے ختمِ قرآن کا اہتمام کیا، نہ صحابہؓ نے کسی کی وفات پر ختم پڑھوایا، نہ اجتماعی تلاوت کر کے ایصالِ ثواب کیا۔ نہ کبھی صحابہؓ نے میت کے چہلم، دسویں، یا برسی پر قرآن ختم کیا۔ نہ کبھی کسی تابعیؒ نے ختمِ قرآن کو ایصالِ ثواب کا ذریعہ قرار دیا۔
ایصالِ ثواب کا عقیدہ ہی خود ساختہ ہےقرآن کا واضح اعلان ہے کہ انسان کو وہی ملے گا جو اس نے خود کمایا (النجم: 39)
اور ختمِ قرآن کو مخصوص شکل میں میت کے لیے کرنا بدعت ہے دین میں ایسا طریقہ نہ نبی ﷺ سے ثابت ہے، نہ صحابہؓ سے۔ لہذا یہ دونوں کام نبی ﷺ کی شریعت میں نہیں، بلکہ علماء سوء کی بنائی ہوئی بدعات میں سے ہیں۔ مسلمان کو صرف وہی عبادت کرنی چاہیے جو نبی ﷺ نے سکھائی، نہ اس میں اضافہ، نہ کمی۔