جی ہاں ایسا کئی مشرک قومیں کرتی ہیں قرآن میں واضح طور پر دیا گیا ہے۔
قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ
کہو کہ اللہ ہی تمہیں ان (مصیبتوں) سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے، پھر (بھی) تم شرک کرنے لگتے ہو۔
(الانعام 64)
1- اللہ ہی مشکلات سے نجات دینے والا ہے۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جب انسان شدید مشکلات، آزمائشوں یا مصیبتوں میں پھنس جاتا ہے، تو وہ صرف اللہ کو پکارتا ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ مصیبت میں وہ اپنے تمام جھوٹے سہارے چھوڑ کر صرف اپنے خالق سے فریاد کرتا ہے۔
2- نجات کے بعد ناشکری اور شرک
لیکن جیسے ہی اللہ تعالیٰ انہیں مشکلات سے نجات دے دیتا ہے، بعض لوگ دوبارہ شرک کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
وہ ان نعمتوں اور راحتوں کو اللہ کے علاوہ دوسروں سے منسوب کرنے لگتے ہیں، جیسے قسمت، ستارے، بزرگوں یا اپنی عقل و تدبیر کو۔
3- یہ شرک کیوں؟
مصیبت میں انسان کو اپنی کمزوری اور بے بسی کا احساس ہو جاتا ہے، لیکن جب وہ سکون میں آتا ہے تو وہ اللہ کی دی گئی نجات کو بھول کر اپنی پرانی روش پر واپس آ جاتا ہے۔
یہ غفلت اور ناقدری کی انتہا ہے کہ جس نے بچایا، اسی کو بھلا دیا جائے یا اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کر لیا جائے۔
4- تاریخ میں اس کی مثالیں
قرآن میں کئی مقامات پر ذکر ہے کہ سابقہ قومیں بھی جب مصیبت میں ہوتیں تو اللہ کو پکارتیں، مگر جب اللہ انہیں نجات دیتا، تو وہ دوبارہ اپنے باطل معبودوں کی طرف لوٹ جاتیں۔
فرعون کی قوم اور کفارِ مکہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
یہ آیت ہمیں سبق دیتی ہے کہ
اللہ ہی حقیقی مددگار ہے اور وہی مصیبتوں سے نجات دینے والا ہے۔
نجات کے بعد بھی اللہ کو یاد رکھنا ضروری ہے تاکہ ناشکری اور شرک میں نہ پڑا جائے۔
مشکل وقت میں اللہ کو پکارنے والا عمل، آسانی میں بھی جاری رہنا چاہیے تاکہ سچے مومنوں میں شمار ہوں۔
یہ آیت ہمیں اللہ کی طرف سچی توبہ اور اخلاص کے ساتھ رجوع کرنے کی دعوت دیتی ہے، تاکہ ہم نجات کے بعد بھی اپنی وفاداری اللہ کے ساتھ برقرار رکھیں۔