نہیں، اولیاء اللہ مرنے کے بعد کسی قسم کا تصرف، مدد، فیض یا قدرت نہیں رکھتے۔ تصرف صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، اور موت کے بعد کوئی انسان دنیا کے امور میں دخل نہیں دے سکتا۔ اولیاء کی نسبت یہ عقیدہ قرآن و سنت کے خلاف اور شرک کی طرف لے جانے والا ہے۔
قُلْ إِنِّى لَآ أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّۭا وَلَا رَشَدًۭا
“کہہ دو (اے نبی) میں تمہارے لیے نہ نقصان کا مالک ہوں اور نہ نفع کا۔”
(سورۃ الجن: 21)
نبی ﷺ بھی اپنی زندگی میں کسی کو نفع و نقصان پہنچانے پر قادر نہ تھے، تو اولیاء اللہ وفات کے بعد کیسے تصرف کرسکتے ہیں؟
سورۃ فاطر کی صریح نفی فرمائی کہ
وَمَا ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍۢ، إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا۟ دُعَآءَكُمْ ۖ وَلَوْ سَمِعُوا۟ مَا ٱسْتَجَابُوا۟ لَكُمْ ۖ
“اور وہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے، اور اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔”
(سورۃ فاطر: 13-14)
اس آیت میں مردوں اور غیراللہ کی عبادت یا ان سے تصرف کا عقیدہ باطل قرار دیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
“إذا مات الإنسان انقطع عمله إلا من ثلاث…”
“جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے…”
(صحیح مسلم، حدیث: 1631)
مرنے کے بعد انسان کے اپنے عمل بند ہو جاتے ہیں، تو وہ دوسروں کے لیے تصرف کیسے کرے گا؟
کبھی کسی صحابیؓ نے کسی ولی کی قبر پر جا کر مدد یا تصرف کا عقیدہ نہیں رکھا۔ ابوبکرؓ، عمرؓ، علیؓ، عثمانؓ سب کی وفات کے بعد کوئی تصرف کا عقیدہ نہ رکھا۔
لہذا موت کے بعد اولیاء اللہ کے تصرف کا عقیدہ قرآن و سنت سے باطل ہے۔ یہ عقیدہ غیراللہ سے مدد مانگنے، فریاد کرنے، اور شرکیہ امور کی بنیاد بن جاتا ہے۔ تصرف، مدد، قدرت اور نفع و نقصان صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔