اللہ تعالیٰ نے شفاعت کو صرف اپنی اجازت سے مشروط کیا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں شفاعت صرف انبیاء، فرشتے یا جنہیں اللہ اجازت دے، وہی کرسکتے ہیں۔ از خود کسی ولی، بزرگ یا شہید کی شفاعت کا عقیدہ رکھنا شرک کی طرف لے جاتا ہے۔
قرآن دو ٹوک انداز میں بیان فرماتا ہے کہ:
قُل لِّلَّهِ ٱلشَّفَـٰعَةُ جَمِيعًۭا
“کہہ دو: شفاعت ساری کی ساری صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔”
(سورۃ الزمر: 44)
واضح ہے کہ شفاعت کی مکمل ملکیت اللہ کے پاس ہے، کوئی ولی یا بزرگ اس کا مالک نہیں۔
مزید وضاحت فرمائی کہ
وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ٱرْتَضَىٰ
“اور وہ (شفاعت کرنے والے) سفارش نہیں کریں گے مگر اسی کے لیے جس سے اللہ راضی ہو گا۔”
(سورۃ الأنبیاء: 28)
صرف وہی شفاعت کرے گا جسے اللہ اجازت دے گا، اور صرف اس کے لیے کرے گا جس سے اللہ راضی ہو گا۔
نبی ﷺ نے تلقین کرتے ہوئے فرمایا
يا فاطمة بنت محمد، سليني من مالي ما شئت، لا أُغني عنكِ من الله شيئاً
“اے فاطمہ بنت محمد! مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو، میں اللہ کے سامنے تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکوں گا۔”
(صحیح بخاری، حدیث: 2753)
جب نبی ﷺ خود اپنی بیٹی کو کہتے ہیں کہ میں تمہارے لیے اللہ کے سامنے کچھ نہیں کر سکوں گا، تو اولیاء کرام کی از خود شفاعت کا عقیدہ کہاں سے آیا؟
شفاعت صرف اللہ کے اذن سے ممکن ہے۔ ہمیں شفاعت کے لیے نہ قبروں پر جانا چاہیے، نہ کسی ولی کو پکارنا چاہیے، بلکہ اللہ سے براہ راست دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں توحید پر موت دے اور نبی ﷺ کی شفاعت سے نوازے۔