اولیاء اللہ سے مدد مانگنا ایک اہم مسئلہ ہے جسکو سمجھنا دراصل اسلام کو سمجھانا ہے۔
اولیاء سے مدد مانگنے کی دو اقسام ہیں
زندہ ولی سے ظاہری مدد ماتحت الاسباب مانگنا جائز ہے، اگر وہ کسی عمل میں قدرت رکھتا ہو، جیسے کہ
بھائی! دعا کریں
مجھے پانی دے دیں
میری مدد کریں، میرے ساتھ چلیں یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام سے ایک شخص نے مدد مانگی (القصص 15)۔
مردہ یا غیر حاضر ولی سے ایسی مدد مانگنا جو مافوق الاسباب ہو یعنی جو صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
یہ صریح شرک ہے۔ اگر یہ عقیدہ ہو کہ وہ بغیر اسباب کے سن سکتا ہے، نفع یا نقصان دے سکتا ہے، تو یہ عقیدہ قرآن کے منافی ہے۔
وَمَنۡ أَضَلُّ مِمَّن يَدۡعُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَن لَّا يَسۡتَجِيبُ لَهُۥٓ إِلَىٰ يَوۡمِ ٱلۡقِيَـٰمَةِ…
اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارے جو قیامت تک جواب نہیں دے سکتے۔
(الأحقاف 5)
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
(الفاتحہ 5)
اگر کوئی ان سے براہِ راست مانگے، یا سمجھتا ہو کہ وہ خود مختار ہیں، عالم الغیب ہیں، حاضر وناظر ہیں وغیرہ تو یہ شرک ہے۔
جیسے کہ کوئی کہے یا رسول اللہ مدد، یا پیر مدد، مولا علی مشکل کشا، عبدالقادر جیلانی غوث اعظم دستگیری کر وغیرہ کہنا یہ شرکیہ جملے ہیں، کیونکہ مشکل کشا صرف اللہ ہے۔
درگاہوں پر سجدہ، نذر و نیاز دینا، یا حاجات مانگنا، یہ نبی یا ولی کے مرتبے سے تجاوز اور شرک کی اقسام ہیں۔
یا علی مدد، یا غوث پاک کہہ کر فریاد کرنا اگر اس میں عقیدہ ہو کہ وہ سن رہے ہیں اور مدد کر سکتے ہیں، تو یہ غیر اللہ سے استغاثہ ہے اور شرک ہے۔
جبکہ صحابہ کرام کا طرزِ عمل یہ تھا کہ صحابہ نے نبی ﷺ کی زندگی میں ان سے دعا کروائی لیکن آپ ﷺ کی وفات کے بعد کسی نے قبر سے مانگنے کی روش نہیں اپنائی۔اسی طرح عمرؓ نے قحط کے وقت عباسؓ سے انکی زندگی میں دعا کروائی، قبرِ نبوی سے نہیں مانگا۔
الغرض کہ مدد صرف اللہ سے مانگنی چاہیے۔ اولیاء کے لئے دعا کریں، لیکن انہیں اللہ کا شریک نہ بنائیں۔
اللہ کو چپکے چپکے اور گڑگڑا کر پکارنے کی ادا پسند ہے۔
اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً
اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے پکارو۔
(الاعراف 55)