نہیں، کشف کی کوئی اصل نہیں ہے یہ شریعت کا راستہ نہیں، نہ ہی دین میں حجت ہیں۔ کشف و کرامت کی آڑ میں صوفیہ نے جو کچھ گھڑا ہے وہ وحی کے بعد آنے والا نیا ذریعہ علم نہیں ہو سکتا، اور اگر کوئی شخص مافوق الاسباب کشف کا دعوی کرتا ہے تو یہ ختمِ نبوت پر حملہ ہے۔
قرآن سے وضاحت ہے:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ
“محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔”
(سورۃ الاحزاب: 40)
وحی کا دروازہ بند ہو چکا، اس کے بعد اگر کوئی شخص الہام، کشف یا خواب کی بنیاد پر حجت منوائے تو وہ درحقیقت ختم نبوت پر حملہ کرتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ
“ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بھما: کتاب اللہ وسنتی”
“میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک ان کو تھامے رکھو گے، گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔”
(موطا امام مالک، حدیث 1395)
دین صرف قرآن و سنت سے لیا جائے گا، نہ کسی خود ساختہ کشف سے، نہ کسی وجدانی خیال سے۔ کشف و کرامت کا دعویٰ اللہ کی وحی کے بعد نیا دروازہ کھولنا ہے۔ جو دین، شریعت یا عقیدہ کسی ولی کے کشف پر کھڑا ہو، وہ باطل ہے۔ ایسے صوفیاء درحقیقت ختم نبوت کے عقیدہ کے ڈاکو ہیں، جو ظاہری الفاظ سے وحی کا دعویٰ نہ کریں، مگر کشف کو “الٰہی علم” قرار دیں۔ دین صرف وحی سے آتا ہے، اور وحی محمد ﷺ پر مکمل ہو چکی۔ کشف کو حجت ماننا ختم نبوت کے عقیدے کے ساتھ خیانت ہے، اور ایسے دعوے دار ضال اور مضل ہیں۔