جی ہاں، قرآن مجید میں ایسے انسانوں کا ذکر ہے جو اولاد جیسی نعمت ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یعنی وہ اپنی اولاد کو یا کسی اور کو نعمت کا ذریعہ سمجھ کر اسے شریک ٹھہراتے ہیں، یا اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں، یا ان کے عقائد و اعمال میں شرک شامل ہو جاتا ہے۔
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍۢ وَٟحِدَةٍۢ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّىٰهَا حَمَلَتْ حَمْلًۭا خَفِيفًۭا فَمَرَّتْ بِهِۦ ۖ فَلَمَّآ أَثْقَلَت دَّعَوَا ٱللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ ءَاتَيْتَنَا صَـٰلِحًۭا لَّنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّـٰكِرِينَ فَلَمَّآ ءَاتَىٰهُمَا صَـٰلِحًۭا جَعَلَا لَهُۥ شُرَكَآءَ فِيمَآ ءَاتَىٰهُمَا ۚ فَتَعَـٰلَى ٱللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
وہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے، پھر جب وہ (بیوی) حاملہ ہوئی ہلکے حمل کے ساتھ، تو وہ اسے لیے پھرتی رہی، پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے اپنے رب اللہ کو پکارا کہ اگر تو ہمیں صالح (نیک) اولاد عطا کرے گا تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے۔ پھر جب اللہ نے انہیں نیک اولاد دے دی تو ان دونوں نے اس میں اللہ کے شریک بنا لیے۔ پس اللہ ان کے شریک کرنے سے بلند و بالا ہے۔
(الاعراف – 189 – 190)
ان آیات سے مراد عام انسانوں کا طرزِ عمل ہے کہ جب وہ مشکل میں ہوتے ہیں تو صرف اللہ کو پکارتے ہیں، لیکن جیسے ہی مشکل دور ہوتی ہے اور اولاد جیسی نعمت ملتی ہے، وہ غیر اللہ کی طرف نسبت کرتے ہیں یا نذریں نیازیں، شکرانے اور عقیدے کے طور پر دوسروں کو شریک کر لیتے ہیں۔ یعنی اولاد کے ملنے پر شکر کے بجائے غیر اللہ کو نذر دینا، یا تعویذ گنڈوں، قبروں، بزرگوں کی طرف نسبت کرنا اور انکے شرکیہ نام رکھنا وغیرہ یہ سب شرک کی صورتیں ہیں۔