قرآن و سنت کے مطابق انسان کی تقدیر پہلے سے اللہ تعالیٰ کے علم اور حکم سے لکھی جا چکی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم اور فیصلہ پیدائش سے بھی پہلے لوحِ محفوظ میں ثبت فرما دیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَـٰهُ بِقَدَرٍ
بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے (تقدیر) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
(القمر 49)
اور فرمایا
مَآ أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍۢ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِىٓ أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍۢ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَآ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌۭ
کوئی مصیبت زمین میں یا تمہارے نفسوں میں نہیں آتی، مگر وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ بے شک یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
(الحدید 22)
یعنی جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے خوشی، غم، رزق، موت، کامیابی، ناکامی۔ سب اللہ کے علم میں پہلے سے ہے اور لوحِ محفوظ میں لکھا جا چکا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کو اختیار بھی دیا گیا ہے
وَهَدَيْنَـٰهُ ٱلنَّجْدَيْنِ
اور ہم نے انسان کو دو راستے دکھا دیے۔
(البلد 10)
یعنی انسان کو نیکی یا برائی کا راستہ اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ مگر جو راستہ وہ اختیار کرتا ہے، اللہ کو اس کا پہلے سے علم ہوتا ہے، اور وہ پہلے ہی سے تقدیر کا حصہ ہوتا ہے۔
انسان کی تقدیر اللہ کے علم میں پہلے سے لکھی جا چکی ہے، لیکن انسان اپنے اختیار سے عمل کرتا ہے، اور ان اعمال پر وہ ثواب یا عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ یہی توازن اللہ کے علمِ کامل اور انسان کے اختیار کے درمیان ہے اور یہ ایمان کا لازمی حصہ ہے۔