جی ہاں، قرآنِ مجید اس حقیقت کو بڑی شدت سے بیان کرتا ہے کہ بعض انسانوں کے دل اتنے سخت ہو جاتے ہیں کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں، بلکہ بعض اوقات تو پتھر بھی خوفِ الٰہی سے پھٹ پڑتے ہیں، مگر دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
کم از کم معجزات دیکھ کر تو سخت دل کو نرم ہو جانا چاہئے مگر اقوام ایسی بھی گزری کہ دل نرم ہونے کے بجائے مذید سخت ہوجاتے تھے۔
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِىَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ ۭ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاۗءُ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
پھر تمھارے دل سخت ہوگئے اس (منظر کو دیکھنے) کے بعد بھی پس وہ تو پتھر کی طرح (سخت) ہیں بلکہ اِس سے بھی زیادہ سخت اور (اِس لیے کہ ) بےشک کئی پتھر ایسے (بھی) ہوتے ہیں جن سے نہریں بَہ نکلتی ہیں اور کئی ایسے (بھی ) ہیں کہ وہ پھٹتے ہیں تو ان سے پانی نکلنے لگتا ہے اور کئی ایسے (بھی) ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں اور اللہ بےخبر نہیں اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو۔
(البقرہ – 74)
یہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی، لیکن اصولی طور پر ہر اس دل پر صادق آتی ہے جو نصیحت اور حق کے سامنے جھکنے کے بجائے تکبر، ضد اور دنیا پرستی میں ڈوبا ہو۔ ایسا دل نہ صرف اثرپذیری سے خالی ہو جاتا ہے بلکہ اللہ کی آیات سے دور، نیکی سے بیزار، اور گناہ پر جری ہو جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے، اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے؛ سن لو! وہ دل ہے۔”
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 52- صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1599
اگر دل سخت ہو جائے تو اسے نرم کرنے کا واحد راستہ قرآن کی تلاوت، اللہ کا ذکر، مظلوموں کی خدمت، گناہوں سے
توبہ، اور موت کی یاد ہے۔ دل کا زنگ دنیا کی محبت اور گناہوں کی کثرت سے لگتا ہے، اور اس کا علاج سچی توبہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت ہے۔