کیا انبیاء اخلاقی تعلیمات سے پہلے عقیدہ کی تعلیم دیتے تھے؟

قرآنِ حکیم کے مطابق تمام انبیاء علیہ السلام کی دعوت کا نقطۂ آغاز ہمیشہ عقیدہ یعنی توحید کی تعلیم ہوتا تھا، نہ کہ محض اخلاقی اصلاحات سے۔ انبیاء علیہ السلام نے اپنی قوموں کو سب سے پہلے اللہ کی وحدانیت، اس کی حاکمیت، اور عبادت میں اخلاص کی دعوت دی۔ ان کا مقصد صرف اچھے اخلاق سکھانا نہیں تھا، بلکہ انسان کو روحانی غلامی سے نکال کر صرف اللہ کا بندہ بنانا تھا۔ چنانچہ اخلاقی اصلاحات، عدل، احسان، صدق و امانت کی تعلیمات بعد میں اسی عقیدۂ توحید کے تابع آتی تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ نوح علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک، تمام انبیاء علیہ السلام نے سب سے پہلے اعبدوا اللہ (اللہ کی عبادت کرو) کا نعرہ بلند کیا۔ انہوں نے اپنی دعوت کی بنیاد اس عقیدے پر رکھی کہ جب تک انسان اللہ کو اپنا رب، حاکم، معبود اور کارساز نہ مانے، اس کے اعمال بھی بے بنیاد اور بے وزن رہتے ہیں۔ یہی عقیدہ انسان کو خودساختہ معبودوں، خواہشات، اور جاہلانہ روایات سے نجات دلاتا ہے۔

يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥ ۚ
اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔
(الأعراف 59)

یہی الفاظ نوح علیہ السلام، ہود علیہ السلام، صالح علیہ السلام، شعیب علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہ السلام نے اپنی قوموں سے کہے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کی دعوت کی بنیاد عقیدہ تھی، نہ کہ محض اخلاقی تعلیمات۔

قرآن واضح کرتا ہے کہ انبیاء کی دعوت کا پہلا قدم ایمان کی اصلاح تھا، کیونکہ اخلاق تب ہی نتیجہ خیز ہوتے ہیں جب ان کی بنیاد سچے عقیدے پر ہو۔ عقیدہ کے بغیر اخلاق صرف سماجی اقدار بن جاتے ہیں، جن میں اللہ کی رضا شامل نہیں ہوتی۔ اس لیے حقیقی اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب انسان پہلے اپنے رب کو پہچانے، اس کے سامنے جھکے، اور پھر زندگی کو اس کی مرضی کے تابع کر دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

قرآن میں دوسروں کا مذاق اُڑانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟قرآن میں دوسروں کا مذاق اُڑانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

قرآنِ کریم نے دوسروں کا مذاق اُڑانے کو ایک سخت اخلاقی جرم اور مؤمن کی شان کے خلاف عمل قرار دیا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف دوسروں کی دل آزاری

ادعونی استجب لکم – کا مفہوم صرف اللہ کے لیے کیوں مختص ہے؟ادعونی استجب لکم – کا مفہوم صرف اللہ کے لیے کیوں مختص ہے؟

دعا بندگی کی بلند ترین شکل ہے، جس میں انسان عاجزی کے ساتھ کسی کو اپنی حاجت کے پورا کرنے والا سمجھ کر پکارتا ہے۔ قرآن میں جہاں بھی دعا