نہیں، امامت نبوت کا تسلسل نہیں ہے۔ جو یہ عقیدہ رکھے کہ “امامت” نبوت کی طرح اللہ کی طرف سے منصوص اور معصوم قیادت ہے تو یہ قرآن، سنت اور صحابہؓ کے فہم کے خلاف ہے، اور اسی نظریے سے بہت سے گمراہ فرقے پیدا ہوئے، جنہوں نے وحی کے دروازے کو بند ہونے سے انکار کیا ہے۔
نبوت کا سلسلہ بند ہونے میں قرآن کی واضح دلیل ہے کہ
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّنَ
“محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں”
(سورۃ الأحزاب: 40)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ اگر امامت کو نبوت کا تسلسل مانا جائے، تو یہ ختمِ نبوت کے منافی ہوگا، جو کہ شرعی و ایمانی طور پر کفر کے مترادف ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
“لا نبي بعدي”
“میرے بعد کوئی نبی نہیں”
(صحیح بخاری، حدیث: 4416)
جب نبوت بند ہو گئی، تو کوئی ایسا منصب بھی باقی نہیں رہتا جو معصوم اور منصوص ہو۔ لہٰذا جو امامت کو نبوت کا تسلسل مانتے ہیں، وہ دراصل نبوت کی صفات کو بعد والوں میں منتقل کر کے ختمِ نبوت کا انکار کرتے ہیں۔
خیر القرون کے خلفاء کی خلافت اسی اصول پر قائم تھی کہ شورٰی کو ترجیح ہوتی تھی نہ کہ کسی الہامی یا منصوص امامت کی بنیاد پر۔
نبی ﷺ نے کبھی علیؓ یا کسی اور کو “امام معصوم” مقرر نہیں کیا، نہ ہی کوئی ایسی وصیت کی جو امامت کو نبوت کے قائم مقام بنائے۔
بعض شیعہ فرقے کہتے ہیں کہ علیؓ اور ان کی نسل سے “امام” اللہ کی طرف سے منصوب ہوتے ہیں یہ “امام” معصوم، علمِ غیب والے، اور ان کی اطاعت فرض ہے اور جو ان کا انکار کرے وہ کافر یا گمراہ ہے۔
یہ تمام باتیں قرآن و سنت میں کہیں موجود نہیں، اور اس نظریے نے امت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔
لہذا امامت نبوت کا تسلسل نہیں، بلکہ ایک سیاسی و دینی ذمہ داری ہے جس کا تعین شورٰی سے ہوتا ہے، نہ کہ کسی الہام یا نص سے۔ نبوت محمد ﷺ پر مکمل ہو چکی، اور اب نہ نبی آئے گا، نہ کوئی معصوم امام۔ جو اس کے خلاف دعویٰ کرے، وہ اسلام کے بنیادی عقائد سے انحراف کرتا ہے۔