نہیں، اللہ کے مقرب بندے، انبیاء ہوں یا اولیاء، کائنات کے نظام میں دخل دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ کائنات کا سارا نظام صرف اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے، اور کسی کو اس میں شریک بنانا توحید کے منافی اور شرک کی طرف جانے والا عقیدہ ہے۔
قرآنِ مجید اسکی واضح نفی کرتا ہے کہ:
اللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا شَفِيعٍۢ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
“اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔ اس کے سوا نہ تمہارا کوئی کارساز ہے اور نہ سفارش کرنے والا۔ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟”
(سورۃ السجدہ: 4)
آیت سے واضح ہے کہ اللہ ہی سب کچھ پیدا کرنے والا، نظام چلانے والا اور تنہا کارساز ہے۔
نیز فرمایا کہ
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَـٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
“پوچھو: کون ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے؟ کون ہے جو کان اور آنکھوں کا مالک ہے؟ کون مردے سے زندہ کو نکالتا ہے اور تمام امور کی تدبیر کرتا ہے؟ وہ کہیں گے: اللہ! تو کہو: پھر کیا تم پرہیزگاری اختیار نہیں کرتے؟”
(سورۃ یونس: 31)
یہاں اللہ نے واضح فرمایا کہ تمام تدبیر اور نظام کا انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔
خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:
“يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، سَلِينِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا”
“اے محمد کی بیٹی فاطمہ! مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو، میں اللہ کے مقابلے میں تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔”
(صحیح بخاری، حدیث: 2753)
اگر نبی ﷺ اپنی عزیز بیٹی کے بارے میں اللہ کے معاملات میں دخل کا اختیار نہ رکھتے تھے، تو کوئی ولی یا نیک بندہ کیسے رکھ سکتا ہے؟
لہذا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ کائنات کا نظام اللہ تعالیٰ اکیلا چلاتا ہے، نہ کوئی ولی، نہ نبی، نہ فرشتہ اس میں کسی قسم کی شرکت یا تصرف رکھتے ہیں۔ جو شخص اللہ کے مقرب بندوں کو کائناتی امور میں دخل دینے والا سمجھتا ہے، وہ توحیدِ ربوبیت کا انکار کر رہا ہے، جو شرک ہے۔ تمام طاقت، علم، تدبیر اور تصرف صرف اللہ کے لیے ہے۔