نہیں، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی مافوق الاسباب طور پر رزق میں کمی یا کشادگی کا اختیار نہیں رکھتا۔
رزق کا حقیقی خالق، قابض، اور تقسیم کرنے والا صرف اللہ ہی ہے۔ مخلوقات چاہے جتنی بھی کوشش کریں، وہ صرف ظاہری اسباب کا حصہ ہیں۔نتیجہ اللہ کے اذن اور مشیت سے ہی مرتب ہوتا ہے۔
رزق کا دینے والا اللہ ہے
إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلرَّزَّاقُ ذُو ٱلْقُوَّةِ ٱلْمَتِينُ
بے شک اللہ ہی بہت زیادہ رزق دینے والا، طاقت والا، زبردست ہے۔
(الذاریات 58)
کمی اور کشادگی اللہ کے ہاتھ میں ہے
ٱللَّهُ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُ
اللہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے، اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔
(الرعد 26)
اللہ کے سوا کسی کو رزق پر قدرت نہیں
وَمَا مِن دَآبَّةٍۭ فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزْقُهَا
زمین میں کوئی بھی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ پر لازم نہ ہو۔
(ھود 6)
مافوق الاسباب ذرائع حرام ہیں؟
مافوق الاسباب کا مطلب ہے
ایسے طریقے یا ہستیاں جن کے ذریعے بغیر کسی ظاہری محنت، محض روحانی یا غیبی ذریعہ سے رزق آ جائے۔
ایسی سوچ کی چند صورتیں
کسی بزرگ، ولی یا قبر سے دعا مانگنا کہ وہ رزق بڑھا دے۔ تعویذ یا طلسم سے یہ امید رکھنا کہ رزق کھل جائے گا۔غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز دے کر رزق طلب کرنا۔وغیرہ
یہ سب افعال توکل علی اللہ کے خلاف ہیں اور شرک کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔ البتہ اسباب اختیار کرنا جائز ہے
اللہ نے دنیا میں اسباب کا نظام رکھا ہے محنت، علم، تجارت، زراعت، نوکری، دعا، صدقہ، تقویٰ، حسنِ سلوک وغیرہ
ان اسباب کو اختیار کرنا سنت ہے۔ مگر نتیجہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔