نفع اور نقصان صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ کوئی نبی، ولی، پیر، فرشتہ یا جن زندہ ہو یا فوت شدہ کسی کو مافوق الاسباب کوئی فائدہ یا نقصان نہیں دے سکتا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَإِن يَمْسَسْكَ ٱللَّهُ بِضُرٍّۢ فَلَا كَاشِفَ لَهُۥٓ إِلَّا هُوَۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍۢ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهِۦ
اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں،
اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے، تو اس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں۔
(یونس 107)
یعنی نفع ہو یا نقصان، راحت ہو یا مصیبت سب اللہ کے حکم سے ہے۔
یہ عقیدہ توحید کی بنیاد ہے، اور اسی پر تمام انبیاء نے اپنی دعوت رکھی۔
نبی کریم ﷺ کو بھی قرآن میں حکم دیا گیا کہ وہ یہ اعلان کریں
قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًۭا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ
کہہ دو میں خود اپنی ذات کے لیے نہ نفع کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ نقصان کا،
سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔
(الاعراف 188)
اگر نبیِ برحق ﷺ وہ خود اپنے لیے نفع و ضرر کے مالک نہیں، جیسا الاعراف کی 188 نمبر آیت میں بتایا گیا، تو پھر کوئی اور کس طرح نفع و ضرر کا مالک ہوسکتا ہے؟
لوگ جب غیراللہ سے مانگتے ہیں، یا یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں بزرگ ان کے کام بنا دیں گے، یا بچا لیں گے، تو یہ عقیدہ قرآن کی روشنی میں باطل ہے۔
اللہ نے فرمایا
قُلْ أَفَرَءَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ إِنْ أَرَادَنِىَ ٱللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَـٰشِفَـٰتُ ضُرِّهِۦٓ أَوْ أَرَادَنِى بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَـٰتُ رَحْمَتِهِۦ
کہہ دو اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف دینا چاہے تو کیا تمہارے پکارے ہوئے (بت، اولیاء) اس کو ہٹا سکتے ہیں؟ یا اگر وہ مجھ پر رحم فرمانا چاہے تو کیا وہ اس کے رحم کو روک سکتے ہیں؟
(الزمر 38)
یہ سب دلائل واضح کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی نفع یا نقصان دینے والا نہیں۔
اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا
إذا سألتَ فاسألِ الله، وإذا استعنتَ فاستعنْ بالله
جب سوال کرو، تو اللہ سے سوال کرو۔ اور جب مدد مانگو، تو اللہ سے مدد مانگو۔
(ترمذی 2516)
پس، توحید کا تقاضا ہے کہ ہم صرف اللہ پر بھروسا رکھیں، اسی سے فائدہ کی امید رکھیں، اور ہر نقصان سے بچاؤ کی دعا بھی اسی سے کریں۔