روزی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی سب کو پیدا کرتا ہے، اور وہی سب کو روزی دیتا ہے انسانوں کو، جانوروں کو، زمین میں رینگنے والے کیڑوں کو، آسمانوں میں اڑنے والے پرندوں کو۔ نہ کوئی اس کا شریک ہے، نہ اس کے ساتھ کسی کی تقسیم چلتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلرَّزَّاقُ ذُو ٱلْقُوَّةِ ٱلْمَتِينُ
یقیناً اللہ ہی بہت رزق دینے والا، قوت والا، زبردست ہے۔
(الذاریات 58)
اللہ الرزّاق ہے، یعنی بہت زیادہ روزی دینے والا، ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق دینے والا۔
قرآن کسی اور کو رزق دینے والا نہیں کہتا، نہ کوئی نبی، ولی، یا فرشتہ۔
اللہ نے سورۂ فاطر میں فرمایا
مَا يَفْتَحِ ٱللَّهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍۢ فَلَا مُمْسِكَ لَهَاۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُۥ مِنۢ بَعْدِهِۦۚ
اللہ جو رحمت (روزی) لوگوں کے لیے کھول دے، اسے کوئی روکنے والا نہیں،
اور جو روک لے، تو اس کے بعد اسے کوئی چھوڑنے والا نہیں۔
(فاطر 2)
روزی دینے کا مطلب صرف پیسہ یا کھانا نہیں، بلکہ صحت، عزت، اولاد، سکونِ قلب، علم، ہدایت یہ سب بھی رزق میں شامل ہیں، اور ان کا دینے والا صرف اللہ ہے۔
اللہ نے مشرکین سے سوال کیا
أَمَّنْ هَـٰذَا ٱلَّذِى يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُۥۚ
اگر اللہ اپنا رزق روک لے، تو کون ہے جو تمہیں روزی دے سکتا ہے؟
(الملک 21)
یہ چیلنج آج بھی باقی ہے۔
اگر کوئی ولی، پیر، یا نبی خود اپنے رزق کا مالک نہیں وہ زندہ ہوں یا وفات پا چکے ہوں تو دوسروں کو کیا دیں گے؟ فرمایا
فَٱبْتَغُوا۟ عِندَ ٱللَّهِ ٱلرِّزْقَ
پس اللہ ہی کے ہاں رزق تلاش کرو۔
(العنکبوت 17)
پس، اہلِ ایمان کا عقیدہ ہونا چاہیے کہ روزی صرف اللہ دیتا ہے، اسی سے مانگنا ہے، اور اسی پر توکل کرنا ہے۔