دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی ہر دل کی بات جانتا ہے، ہر زبان کو سمجھتا ہے، اور ہر پکار کا جواب دیتا ہے چاہے بندہ آہستہ پکارے یا دل ہی میں عرض کرے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
(غافر 60)
یہ براہِ راست اللہ کا وعدہ ہے کسی واسطے یا وسیلے کی شرط کے بغیر۔
اللہ کے سوا کسی کے بارے میں قرآن نے یہ نہیں کہا کہ وہ دعا سنتا اور قبول کرتا ہے۔
قرآنِ کریم ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے جو غیراللہ کو پکار کر دعا کرتے ہیں
وَٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍۢ، إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا۟ دُعَآءَكُمْۖ وَلَوْ سَمِعُوا۟ مَا ٱسْتَجَابُوا۟ لَكُمْۖ
جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ کھجور کی جھلی کے بھی مالک نہیں۔
اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعا سن نہیں سکتے، اور اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔
(فاطر 13-14)
یعنی جو اللہ کے سوا پکارے جا رہے ہیں وہ سن بھی نہیں سکتے، اور سن کر کچھ کر بھی نہیں سکتے۔
نبی کریم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ اعلان کریں
قُلْ إِنَّمَآ أَدْعُوا۟ رَبِّى وَلَآ أُشْرِكُ بِهِۦٓ أَحَدًۭا
کہہ دو میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
(الجن 20)
یہی طریقہ انبیاء کا تھا۔ نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام، اور نبی محمد ﷺ سب نے اپنی دعائیں براہِ راست اللہ سے کیں، کسی نبی، ولی، یا بزرگ کو پکارا نہیں اور نہ واسطہ، وسیلہ دیا۔
دعاء، قرآن کے مطابق، عبادت ہے
وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا۟ مَعَ ٱللَّهِ أَحَدًۭا
اور بے شک مسجدیں اللہ ہی کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔
(الجن 18)
پس، اسلام کی روشنی میں دعاء سننے والا صرف اللہ ہے، اسکے سوا کوئی دوسرا نہیں۔
جواب دینے والا صرف اللہ ہے، اسکے سوا کوئی دوسرا نہیں۔
قبول کرنے والا صرف اللہ ہے، اسکے سوا کوئی دوسرا نہیں۔ اور یہی خالص توحید ہے۔