کیا اللہ کو کسی چیز کی حاجت ہے؟

قرآنِ مجید کے مطابق اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کی حاجت نہیں۔ نہ اسے کھانے کی حاجت ہے، نہ آرام کی، نہ کسی مددگار یا ساتھی کی۔ وہ ہر اعتبار سے بے نیاز، کامل، خود کفیل، اور ہر مخلوق سے مستغنی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ
اللہ صمد (بے نیاز) ہے۔
(الاخلاص 2)

الصمد کا مطلب یہ ہے کہ سب مخلوق اپنی ضروریات میں اللہ کی طرف رجوع کرتی ہے، لیکن اللہ کو کسی کی حاجت نہیں۔
یہ صفت صرف اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ کوئی نبی، ولی، فرشتہ یا جن مخلوقات میں سے کوئی اللہ جیسا بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

مزید فرمایا کہ

وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ، مَآ أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍۢ وَمَآ أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ، إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلرَّزَّاقُ ذُو ٱلْقُوَّةِ ٱلْمَتِينُ
میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا، اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔
بے شک اللہ ہی رزق دینے والا ہے، زبردست، طاقت والا۔
(الذاریات 56–58)

اللہ نہ تھکتا ہے، نہ اسے نیند آتی ہے، نہ اسے اولاد کی ضرورت ہے، نہ کسی سہارے یا وسیلے کی۔

ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُۚ لَا تَأْخُذُهُۥ سِنَةٌۭ وَلَا نَوْمٌۭ
اللہ! اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ ہے، قائم رکھنے والا ہے،
نہ اسے اونگھ آتی ہے، نہ نیند۔
(البقرہ 255)

اگر اللہ کو کسی چیز کی حاجت ہوتی تو وہ معبود نہ ہوتا۔
معبود وہی ہے جو کامل ہو، کسی پر محتاج نہ ہو، اور سب اس کے محتاج ہوں۔

اسی لیے تو قرآن ہمیں بار بار یہ سکھاتا ہے کہ

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ أَنتُمُ ٱلْفُقَرَآءُ إِلَى ٱللَّهِۖ وَٱللَّهُ هُوَ ٱلْغَنِىُّ ٱلْحَمِيدُ
اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو، اور اللہ غنی (بے نیاز) اور تعریف کے لائق ہے۔
(فاطر 15)

پس، وہ اللہ جو کسی کا محتاج نہیں، اسی کے در پر سوال کرنا چاہیے، نہ کہ ان لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا جو خود بھی اللہ کے محتاج ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

مشرک لوگ کیا اپنے شرک کا الزام بھی اللہ کو دیتے تھے؟مشرک لوگ کیا اپنے شرک کا الزام بھی اللہ کو دیتے تھے؟

جی ہاں، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک لوگ اپنے شرک اور گمراہی کا الزام بھی اللہ تعالیٰ پر ڈالنے کی جسارت کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر

کیا غوث، قطب، ابدال کے القابات کا شرعی جواز ہے؟کیا غوث، قطب، ابدال کے القابات کا شرعی جواز ہے؟

اسلام میں القابات اور عناوین کا استعمال شرعی نصوص اور صحابہ و تابعین کے تعامل کی روشنی میں ہی معتبر ہوتا ہے۔ بعض صوفی سلسلوں میں “غوث”، “قطب”، “ابدال”، “اوتاد”

جھگڑا کرنے والوں کو قرآن کس چیز کی دعوت دیتا ہے؟جھگڑا کرنے والوں کو قرآن کس چیز کی دعوت دیتا ہے؟

قرآنِ حکیم جھگڑا کرنے والوں کو فساد، غرور اور دشمنی سے بچنے اور صلح و اصلاح کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن اختلاف کو انسانی فطرت کا حصہ مانتا ہے، لیکن