اسلام میں مرنے کے بعد انسان کا دنیاوی نظام سے تعلق ختم ہو جاتا ہے، اور وہ برزخ کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ فوت شدہ شخص نہ کسی کی دنیاوی زندگی میں مداخلت کر سکتا ہے، نہ اس کے احوال کو سن سکتا ہے، اور نہ ہی دنیا میں کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس لیے جو عقیدہ یہ کہے کہ اولیاء یا بزرگ مرنے کے بعد لوگوں کے معاملات میں اثر انداز ہو سکتے ہیں، وہ قرآن و سنت کے واضح اصولوں کے خلاف ہے۔
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ ٱلْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
(النمل 80)
یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے، اور نہ بہروں کو پکار سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر چلے جائیں۔
یہ آیت صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ موت کے بعد جب انسان سماعت کی صلاحیت نہیں رکھتا جیسا کہ دنیا میں رکھتا تھا۔ تو پھر تاثیر کیسی؟ مرنے والوں کو پکارنا یا ان سے مدد مانگنا قرآن کی روح کے خلاف ہے۔
وَمَا يَسْتَوِى ٱلْأَحْيَآءُ وَلَا ٱلْأَمْوَٰتُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَآءُ ۖ وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍۢ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ
زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے، بے شک اللہ جسے چاہے سناتا ہے، اور آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔
(فاطر 22)
یہ آیت اس عقیدے کی بھی نفی کرتی ہے کہ قبر میں موجود افراد دنیا کی پکار یا احوال سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ وفات کے بعد انسان اپنے اعمال کے حساب و کتاب میں مصروف ہوتا ہے اور دنیاوی نظام میں اس کی واپسی یا مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، سوائے تین کے صدقہ جاریہ، علم نافع، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
(صحیح مسلم 1631)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مرنے والا کسی کو فیض نہیں دیتا بلکہ وہ خود محتاج ہوتا ہے کہ کوئی زندہ اس کے لیے دعا کرے۔
اسلام کی روح یہ سکھاتی ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کا اختیار اور عمل دنیاوی معاملات سے ختم ہو جاتا ہے۔ ہم زندہ لوگوں کو چاہیے کہ اللہ ہی کو پکاریں، اسی سے مدد مانگیں، اور دعا کا وسیلہ قرآن و سنت کے مطابق اختیار کریں۔ مردوں کے ذریعے اثرات یا مدد کی تلاش عقیدے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے اور توحید کی روح کو مجروح کرتی ہے۔