کیا اذان کے بعد درود پڑھنا بدعت ہے؟

اذان اسلامی شعار ہے، اور اس کے بعد جو کچھ مشروع ہے وہ بھی سنت سے ثابت ہونا چاہیے۔ اذان کے بعد درود پڑھنا اگر نبی ﷺ یا صحابہؓ سے کسی معین جگہ اور معین طریقے سے ثابت نہ ہو، اور اسے دین کا حصہ سمجھا جائے، تو یہ بدعت شمار ہوگا، کیونکہ دین مکمل ہے، مروجّہ الفاظ و انداز میں اذان سے اول و آخر درود پڑھنا خالص بدعت ہے۔

ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗا
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا۔
(سورۃ المائدہ، آیت: 3)

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ دین مکمل ہو چکا ہے، اور اس میں کسی نئی عبادت کا اضافہ، چاہے وہ درود ہی کیوں نہ ہو، اگر اسے سنت کے قائم مقام یا دین کا جزو سمجھا جائے تو وہ بدعت ہے۔ نبی ﷺ نے اذان کے بعد دعا سکھائی ہے، جو “اللهم رب هذه الدعوة التامة…” پر مشتمل ہے، نہ کہ مروّجہ درود۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
“من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ”
جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں، وہ مردود ہے
(صحیح بخاری، حدیث: 2697)

درود ابراہیمی پڑھنا بذاتِ خود بہت بڑی نیکی ہے، اور قرآن و حدیث میں اس کی ترغیب ہے، لیکن ہر عمل کو اس کے صحیح مقام پر ادا کرنا ہی سنت ہے، مگر اجتماعی طور پر باقاعدہ آواز سے پڑھنا، اور دین کا حصہ سمجھنا، یہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ دین میں ہر اضافہ اصل دین پر اعتماد کی کمی اور نبی ﷺ کے طریقے سے بے نیازی کا اظہار ہے، جو توحید کے منافی ہے۔

لہٰذا جس کام کی رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین سے کوئی خاص شکل یا وقت پر کوئی مثال نہ ہو، اور اس کو دین سمجھ کرنہ کیا جائے ورنہ بدعت ہوگا۔ ہمیں توحید و سنت پر قائم رہتے ہوئے اذان کے بعد وہی دعا کرنی چاہیے جو نبی ﷺ نے سکھائی، اورصرف ثابت شدہ درود ابراہیمی عام زندگی میں کثرت سے پڑھنا چاہیے، نہ کہ اذان کے فوراً بعد اجتماعی انداز میں۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا قرآن کے بعد کسی اور الہامی کتاب کی ضرورت باقی ہے؟کیا قرآن کے بعد کسی اور الہامی کتاب کی ضرورت باقی ہے؟

قرآنِ مجید نے اپنا تعارف آخری اور مکمل کتاب کے طور پر کروایا ہے، جو قیامت تک کے لیے کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن