قرآن و سنت کی روشنی میں “اختلافِ امت رحمت ہے” کہنا نہ صرف باطل ہے بلکہ گمراہی کی ترویج ہے۔ دینِ اسلام میں اصل اصول اتحاد، اجتماع، اور اطاعتِ رسول ﷺ ہے، جبکہ اختلاف اور تفرقہ واضح ممنوع ہے۔ بعض لوگ “اختلافِ امت رحمۃ” کو حدیثِ رسولﷺ سمجھتے ہیں، لیکن یہ نہ قرآن کی آیت ہے نہ صحیح حدیث، بلکہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے جس پر محدثین نے کلام کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ ۚ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
“اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جو روشن دلائل آنے کے بعد بھی تفرقہ ڈالے اور اختلاف کرنے لگے، انہی کے لیے بڑا عذاب ہے”
(سورۃ آل عمران: 105)
اگر اختلاف رحمت ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے عذاب کا سبب نہ قرار دیتا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اختلاف سے سختی سے روکا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“إِنَّ اللّٰهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا… وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا، وَلَا تَفَرَّقُوا”
“اللہ تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند فرماتا ہے… یہ کہ تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقہ نہ کرو”
(صحیح مسلم، حدیث: 1715)
صحابہ کرامؓ کا راستہ بھی اجتماع اور اتباع تھا، نہ کہ گروہ، مسلک یا “ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق دین”۔ قرآن نے واضح کیا
“إِنَّ ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِى شَىْءٍ”
“جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے کر دیا اور گروہ بن گئے، آپ ﷺ کا ان سے کوئی تعلق نہیں”
(سورۃ الانعام: 159)
پس ثابت ہوا کہ اختلاف امت رحمت نہیں، لعنت ہے۔ رحمت صرف اطاعت، اتحاد، اور حق پر مجتمع ہونے میں ہے۔ “اختلافِ امت رحمت ہے” کہنا بدعت اور اہل بدعت کا جملہ ہے جس سے اجتناب لازم ہے۔