جی ہاں، اجماعِ صحابہؓ دین میں قطعی حجت ہے، کیونکہ صحابۂ کرامؓ براہِ راست نبی کریم ﷺ کے تربیت یافتہ تھے، وحی کے زمانے میں اسلام کو سیکھا، عمل کیا، اور دین کو نقل و پھیلایا۔ ان کا فہم اور اتفاق، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد سب سے معتبر و محفوظ ذریعہ ہے۔
قرآنِ مجید نے صحابہؓ کی جماعت کو معیارِ ہدایت قرار دیا:
﴿وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَـٰجِرِينَ وَٱلۡأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحۡسَـٰنٖ رَّضِيَ ٱللَّهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُ﴾
“اور مہاجرین و انصار میں سے جو سبقت لے گئے، اور جو ان کے نقشِ قدم پر چلے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے”
(سورۃ التوبہ: 100)
یعنی ان کا عمل، فہم اور اتفاق اللہ کی رضا کا معیار ہے۔ جو ان کے فہم سے ہٹے، وہ گمراہی کی طرف جاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي”
“تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت”
(سنن ابی داود، حدیث: 4607)
اس میں نبی ﷺ نے صحابہ کے اجماعی طرزِ عمل کو لازم قرار دیا۔ خلفائے راشدین کی سنت، اصل میں صحابہؓ کے مجموعی فہم و عمل کی نمائندگی ہے۔
اجماعِ صحابہ قرآن و سنت کے بعد دین کے اصول کو محفوظ رکھنے کا تیسرا ذریعہ ہے۔ اگر یہ اجماع نہ مانا جائے تو ہر دور میں نئے فرقے اور تاویلیں جنم لیں گی۔ اجماعِ صحابہ کی مخالفت، دراصل نبی کی تربیت کی مخالفت ہے۔ جو قرآن و سنت کو سمجھنے میں صحابہؓ کے اجماع کا انکار کرے، وہ حق کے معیار سے ہٹ جاتا ہے۔ اللہ کی رضا اور دین کی سلامتی صحابہؓ کی پیروی میں ہے اور جو اس کو رد کرے وہ حق سے دور جا چکا۔