جی ہاں، اجتہاد آج بھی ممکن ہے بلکہ لازم ہے، لیکن صرف ان مسائل میں جن پر قرآن و حدیث خاموش ہوں یا جہاں نصوص کی تطبیق درکار ہو۔ شریعت میں جہاں نص قطعی موجود ہو، وہاں اجتہاد کی اجازت نہیں۔
فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي ٱلْأَبْصَـٰرِ
“پس اے دیدہ بینا رکھنے والو! عبرت حاصل کرو”
(سورۃ الحشر: 2)
یہ آیت اہلِ بصیرت کو غور و فکر، فہم اور قیاس کی دعوت دیتی ہے، جو اجتہاد کی بنیاد ہے۔
نبی ﷺ نے مجتہد کو اجر کی بشارت دی فرمایا
إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب فله أجران، وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ فله أجر
“جب کوئی حاکم اجتہاد کرے اور درست فیصلہ کرے تو اس کے لیے دو اجر ہیں، اور اگر اجتہاد کرے اور خطا کرے تو اس کے لیے ایک اجر ہے”
(صحیح بخاری، حدیث: 7352)
یہ حدیث بتاتی ہے کہ اجتہاد خطا سے پاک نہیں، مگر خالص نیت اور شریعت کی خدمت کی بنیاد پر اجتہاد اجر کا سبب ہے۔
خلیفۂ راشدینؓ نے ایسے بہت سے مسائل میں اجتہاد کیا جن پر قرآن و سنت میں صریح نص نہ تھی، جیسے زکوٰۃ کے مسائل میں تفصیل، فتوحاتِ عراق و شام کے بعد زمین کی تقسیم کا مسئلہ، قاضی مقرر کرنا، بیت المال کا نظام، وغیرہ
ان تمام فیصلوں میں انہوں نے قرآن و سنت کی روح کے مطابق اجتہادی بصیرت سے کام لیا۔ اجتہاد ہر مسلمان کا کام نہیں، بلکہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو قرآن و سنت کا عالم ہو. اصولِ فقہ، لغت عرب، اور مقاصدِ شریعت سے واقف ہو فہمِ صحابہؓ اور اجماع کا احترام کرتا ہو
تقویٰ اور اخلاص رکھتا ہو، اجتہاد شریعت میں نئی بات پیدا کرنا (بدعت) نہیں بلکہ شریعت کی روشنی میں نئی صورتِ حال کا حل تلاش کرنا ہے۔
اجتہاد نصوص کے دائرے میں رہ کر ممکن اور ضروری ہے۔ اجتہاد کا دروازہ بند کرنا بدعت ہے، جیسا کہ بعض متعصب فقہی گروہ کرتے ہیں۔ اجتہاد شریعت میں تغیر نہیں، بلکہ شریعت کی روشنی میں فہم و تطبیق کا نام ہے۔
اجتہاد باقی ہے، مگر اسے وحی کا قائم مقام نہ بنایا جائے۔