کیا ائمہ کا اختلاف دلیل ہے یا تقلید کا جواز؟

قرآن و سنت کی روشنی میں ائمہ کا اختلاف نہ تو دلیل ہے، نہ ہی اندھی تقلید کا جواز۔ دین کی دلیل صرف اللہ کا کلام اور رسول ﷺ کی ثابت شدہ حدیث ہے۔ ائمہ اگر حق کی بات کریں تو ؤہ حق بات ہونے کی وجہ سے درست ہے، لیکن اگر ان کی بات قرآن و سنت کے خلاف ہو تو اس پر عمل نہیں کرنا چاہئے بلکہ اللہ کی آیات اور صحیح حدیث سے دلیل لینی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ
“اگر تم کسی معاملے میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ”
(سورۃ النساء: 59)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اختلاف کا حل قرآن و سنت ہے، نہ کہ کسی امام کی رائے یا مسلکی فتوے۔ اگر اختلاف میں امام دلیل ہوتا، تو اللہ یہ حکم دیتا کہ “ائمہ میں سے جس کو چاہو، مانو”۔ لیکن حکم صرف اللہ اور رسول کی طرف رجوع کا دیا گیا ہے۔

لہٰذا ائمہ کا اختلاف نہ حجت ہے، نہ دلیل، نہ تقلید کا جواز۔ معیار صرف وحی ہے۔ رسول ﷺ نے فرمایا

“تركتُ فيكم أمرين، لن تضلوا ما تمسكتم بهما: كتابَ الله وسنتي”
“میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک ان کو تھامے رکھو گے، ہرگز گمراہ نہ ہو گے اللہ کی کتاب اور میری سنت”
(موطا امام مالک، 1395)

پس جو دین وحی کے سوا کسی اور پر مبنی ہو، وہ تقلیدِ شخصی ہے، جس کی قرآن نے مذمت کی

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ٱتَّبِعُوا مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ قَالُوا۟ بَلْ نَتَّبِعُ مَآ أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَا
“جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کا نازل کردہ (قرآن) مانو، تو کہتے ہیں: نہیں، ہم تو اسی پر چلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا”
(سورۃ البقرہ: 170)

آئمہ کا اختلاف کسی باطل کے جواز کی دلیل نہیں۔ حق وہی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہو، اور جو ان کے خلاف ہو، وہ مردود ہے چاہے کسی بھی امام کی طرف منسوب ہو۔

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

چاند کیوں گھٹتا اور پڑھتا ہے؟چاند کیوں گھٹتا اور پڑھتا ہے؟

چاند کا گھٹنا اور بڑھنا اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ۭ قُلْ ھِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وہ آپ