آدم علیہ السلام کی توبہ اللہ نے براہ راست قبول فرمائی، اور کسی وسیلے کا ذکرقرآن یا مستند احادیث میں نہیں ملتا۔
قرآن کریم میں آدم علیہ السلام کی توبہ کا جو ذکر آیا ہے، وہ درج ذیل الفاظ میں ہے
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ
انہوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ فرمائے، تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
(الاعراف 23)
یہاں کسی وسیلے کا ذکر نہیں بلکہ سیدھی دعا ہے جو آدم اور حوا علیہما السلام نے اللہ سے مانگی۔جو حدیث بیان کی جاتی ہے، وہ موضوع ہے۔ جیسا کہ
بعض روایات میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آدم علیہ السلام نے گناہ کے بعد توبہ کی، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے محمد ﷺ کے وسیلے سے دعا کی۔
اے اللہ! میں تجھ سے محمد ﷺ کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم! تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ محمد ﷺ کون ہیں؟
آدم علیہ السلام نے عرض کیا جب تو نے مجھے پیدا کیا اور میں نے عرش پر لکھا دیکھا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ تو میں سمجھ گیا کہ تو نے اس عظیم نام والے کے وسیلے سے ہی کائنات کو پیدا فرمایا ہے۔
یہ روایت ابو الحسن البیہقی نے دلائل النبوۃ میں ذکر کی ہے اور بعض دیگر محدثین نے بھی اس کا ذکر کیا ہے، لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور محدثین نے اسے قابل قبول نہیں سمجھا۔
ابن کثیر (تفسیر ابن کثیر، البقرہ آیت 37) فرماتے ہیں
اس روایت کی سند میں سخت کمزوری ہے، اور اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
امام شوکانی (تحفۃ الذاکرین-صفحہ نمبر7) فرماتے ہیں
یہ روایت موضوع (من گھڑت) معلوم ہوتی ہے، اور یہ نبی کریم ﷺ کی شان گھٹانے کے مترادف ہے کہ آدم علیہ السلام نے وسیلہ لیا ہو جبکہ قرآن میں ان کی دعا واضح طور پر موجود ہے۔
بحرحال آدم علیہ السلام کی دعا میں وسیلے کا ذکر نہیں بلکہ براہ راست دعا ہے جو آدم اور حوا علیہما السلام نے اللہ سے مانگی۔