قرآن مجید خود یہ بات کئی جگہ واضح کرتا ہے کہ ہر کوئی اس سے نصیحت حاصل نہیں کرتا، بلکہ صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے دل میں طلب، تقویٰ، اور عقل و فکر کی صلاحیت ہو۔ ذیل میں قرآن کی روشنی میں اُن اقسام کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو واقعی نصیحت حاصل کرتے ہیں
متقین (تقویٰ والے لوگ)
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لیے۔
(البقرہ2)
قرآن کی ہدایت عام ہے، لیکن متقی ہی اسے صحیح طور پر سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔
عقل والے لوگ
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثال بیان کی، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
(الزمر 27-28)
وہی لوگ نصیحت لیتے ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔
یقین رکھنے والے (موقنون)
هُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
یہ قرآن ہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔
(النمل 77)
ایمان کے بغیر قرآن کا اثر دل پر نہیں ہوتا۔
تذکرہ لینے والے (ذکر کے طالب)
فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ
پس قرآن کے ذریعے نصیحت کرو، اُسے جو میرے وعید (عذاب) سے ڈرتا ہو۔
(ق 45)
جو اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں، وہ قرآن کی باتوں پر کان دھرتے ہیں۔
دل والے اور سننے والے لوگ
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ
بے شک اس میں نصیحت ہے اُس کے لیے جس کا دل ہو، یا جو دھیان سے سنے اور حاضر دماغ ہو۔
(ق 37)
نصیحت لینے کے لیے زندہ دل، توجہ اور سننے کا جذبہ ضروری ہے۔
رجوع کرنے والے (منیب)
إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَـٰنَ بِالْغَيْبِ
آپ تو صرف اسی کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرے اور رحمٰن سے بغیر دیکھے ڈرے۔
(یس 11)
آپ صرف اُسے ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرے اور رحمان سے غائبانہ ڈرے۔