قرآنِ مجید کے مطابق، ابلیس کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا جو مخلص مومن ہیں۔فرمایا
اللہ کے مخلص بندے ہوں (عبادَكَ المُخلَصِين)
یہ فقرہ ابلیس کے قول میں آیا ہے جب اُس نے اللہ کے سامنے قیامت تک انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم کھائی۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَإِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ
ابلیس نے کہا تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکاؤں گا، سوائے تیرے ان بندوں کے جو ان میں سے خالص کیے گئے ہوں۔
(ص – 82-83)
مُخْلَصِين کون ہیں؟
جنہوں نے شرک، ریاکاری، نفاق، اور دنیا پرستی کو چھوڑ دیا ہو، جن کی نیت، عبادت، اور اطاعت خالصتاً اللہ کے لیے ہو۔ جو اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم ہوں، اور گناہ پر نادم ہوں۔
یاد رہے کہ مُخْلِص (بکسر اللام) وہ ہوتا ہے جو خود خلوص رکھے اور مُخْلَص (بفتح اللام) وہ ہے جسے اللہ نے خالص کر لیا ہو۔ یہاں مُخْلَصِين استعمال ہوا ہے، یعنی اللہ کے چنے ہوئے بندے، جن پر شیطان کا زور نہیں چلتا۔
دوسرے مقام پر بتایا گیا کہ
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ، إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ
بے شک میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا، سوائے ان کے جو تیرے پیچھے چلیں گے جو گمراہ ہوں گے۔
(الحجر – 42)
یہاں میرے بندے سے مراد اللہ کے وہ بندے ہیں جو مخلص ہیں، سچے ایمان والے، نافرمانی سے بچنے والے۔
ایمان لانے والے اور اللہ پر توکل کرنے والے
إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
یقیناً اس (شیطان) کا زور ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔
(النحل- 99)
ابلیس ان پر قابو نہیں پاسکتا جو خالص اللہ کے بندے ہوں، خالص ایمان رکھتے ہوں ، اللہ پر توکل کرتے ہوں۔ ایسے لوگ شیطان کے وسوسوں کو پہچان لیتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، اور سیدھے راستے پر جمے رہتے ہیں۔