قرآنِ مجید کے مطابق، ناپ تول میں کمی کرنے والی قوم قومِ شعیب تھی، جو مدین کے علاقے میں آباد تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے شعیب علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا، مگر انہوں نے ناپ تول میں کمی، دھوکہ دہی، اور زمین میں فساد سے باز نہ آیا۔ جس پر اللہ کا سخت عذاب نازل ہوا۔
وَيْلٌۭ لِّلْمُطَفِّفِينَ – ٱلَّذِينَ إِذَا ٱكْتَالُوا۟ عَلَى ٱلنَّاسِ يَسْتَوْفُونَ – وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ
(ناپ تول میں) کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ جب وہ لوگوں سے (خود) ناپ کر لیتے ہیں (تو) پورا لیتے ہیں۔ اورجب وہ اُنھیں ناپ یا تول کر دیتے ہیں (تو) کم کر دیتے ہیں۔
(المطففین 1تا3)
یہ آیات عام اصول بیان کرتی ہیں کہ خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے۔لیکن جن قوموں میں یہ فساد عام ہوا، ان میں قومِ شعیب نمایاں مثال ہے۔
كَذَّبَ أَصْحَـٰبُ مَدْيَنَ ٱلْمُرْسَلِينَ
أَوْفُوا ٱلْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا۟ مِنَ ٱلْمُخْسِرِينَ وَزِنُوا۟ بِٱلْقِسْطَاسِ ٱلْمُسْتَقِيمِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَاۗءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ
تم ناپ پورا بھر کر دو اور تم نقصان دینے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔ اور سیدھے ترازو کے ساتھ وزن کرو۔ اور تم لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور تم زمین میں فساد کرنے والے بن کر نہ پھرو۔
(الشعراء 180 تا 183)
شعیب علیہ السلام نے انہیں ناپ تول میں انصاف کرنے کا حکم دیا، لیکن وہ باز نہ آئے۔
قوم کا انجام
فَأَخَذَتْهُمُ ٱلرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا۟ فِى دَارِهِمْ جَـٰثِمِينَ
پھر اُنھیں زلزلہ نے آپکڑا تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے مُنھ پڑے رہ گئے۔
(الاعراف 91)