قرآنِ مجید نے ایمان والوں کی سچائی اور توبہ کی قبولیت کے ایسے واقعات محفوظ کیے ہیں جو رہتی دنیا تک توبہ، صداقت اور اللہ کی رحمت کی عملی مثال بن گئے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر بعض صحابہ بغیر عذر کے پیچھے رہ گئے، مگر ان میں سے کچھ نے جھوٹ کا سہارا لینے کے بجائے ندامت کے ساتھ سچ بولنے کو ترجیح دی۔ ان میں نمایاں نام کعب بن مالکؓ کا ہے، جنہوں نے اپنی کوتاہی کا کھلے دل سے اعتراف کیا اور اللہ کی رضا کے لیے صبر کے ساتھ تنہائی کا سامنا کیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَعَلَى ٱلثَّلَـٰثَةِ ٱلَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّىٰٓ إِذَا ضَاقَتۡ عَلَيۡهِمُ ٱلۡأَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَضَاقَتۡ عَلَيۡهِمۡ أَنفُسُهُمۡ وَظَنُّوٓاْ أَن لَّا مَلۡجَأَ مِنَ ٱللَّهِ إِلَّآ إِلَيۡهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيۡهِمۡ لِيَتُوبُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ
اور ان تینوں پر بھی (اللہ نے مہربانی فرمائی) جنہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا، یہاں تک کہ زمین باوجود کشادگی کے ان پر تنگ ہو گئی اور ان کے دل بھی گھٹنے لگے، اور انہوں نے گمان کر لیا کہ اللہ کے سوا کہیں پناہ نہیں، پھر اللہ نے ان پر مہربانی فرمائی تاکہ وہ توبہ کریں۔ بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔
(التوبہ 118)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان تین صحابہ کا ذکر فرمایا جن میں کعب بن مالکؓ بھی شامل تھے۔ ان پر بائیکاٹ کیا گیا، اہلِ مدینہ نے بات چیت بند کر دی، حتیٰ کہ ان کی بیویوں کو بھی الگ کر دیا گیا۔ مگر انہوں نے صبر کیا، معافی نہ مانگی، صرف اللہ کی طرف رجوع کرتے رہے۔
نبی ﷺ نے ان کے سچ کو قبول کیا اور اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعے ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان فرمایا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ وقتی سہولت دیتا ہے لیکن اللہ کی رضا سچائی میں ہے۔
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ سچائی، ندامت، اور اللہ کی طرف خالص رجوع وہ صفات ہیں جو اللہ کو پسند ہیں، اور اللہ ایسے بندوں کی توبہ کو قبول کر کے انہیں عزت اور رحمت سے نوازتا ہے۔