کفارِ مکہ کے ہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت اور باعثِ شرم سمجھا جاتا تھا۔ وہ بیٹی کو عار (ذلت) خیال کرتے اور اکثر زندہ درگور (زندہ دفن) کر دیتے تھے۔ قرآنِ کریم نے ان کے اس ظالمانہ اور جاہلانہ رویے کو نہایت واضح اور شدید الفاظ میں بیان کیا ہے۔
کفارِ مکہ کا بیٹی کی پیدائش پر ردعمل
چہرہ سیاہ اور غصے سے بھرا ہوا
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِٱلْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُۥ مُسْوَدًّۭا وَهُوَ كَظِيمٌۭ يَتَوَارَىٰ مِنَ ٱلْقَوْمِ مِن سُوٓءِ مَا بُشِّرَ بِهِۦ ۚ أَيُمْسِكُهُۥ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُۥ فِى ٱلتُّرَابِ ۗ أَلَا سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ
اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی، تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا، اور وہ غصے سے بھر جاتا۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا اس بری خبر کی وجہ سے جو اسے دی گئی۔ سوچتا رہتا کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے یا مٹی میں دبا دے؟ سن لو! بہت ہی برا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔
(النحل 58-59)
بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا
وَإِذَا ٱلْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ بِأَىِّ ذَنبٍۢ قُتِلَتْ
اور جب زندہ دفن کی گئی بچی سے پوچھا جائے گا
کس گناہ کے بدلے اسے قتل کیا گیا؟
(التکویر 8-9)
یہ قیامت کے دن کا منظر ہے، جہاں بیٹی کو قتل کرنے والے ظالموں سے بازپرس ہو گی۔
اللہ نے اس عمل کو ظلم قرار دیا
اللہ تعالیٰ نے بیٹی کو ذلت نہ سمجھنے بلکہ رحمت ماننے کا حکم دیا۔ اسلام نے بیٹی کی عزت و حقوق کو بحال کیا اور اسے جنت کا ذریعہ قرار دیا۔