کسی پر ظلم کرنے والے کے لیے قرآن میں کیا انجام بتایا گیا ہے؟

قرآنِ کریم میں ظلم کرنے والوں کے لیے سخت وعیدیں اور سنگین انجام بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ظلم کو ہدایت سے انکار، دوسروں کے حقوق غصب کرنے، اور سرکشی کی علامت قرار دیا ہے۔ قرآن میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا، ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، ان پر اللہ کا غضب اور عذاب نازل ہوتا ہے، اور قیامت کے دن وہ سخت ترین خسارے میں ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلَا تَحْسَبَنَّ ٱللَّهَ غَـٰفِلًا عَمَّا يَعْمَلُ ٱلظَّـٰلِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍۢ تَشْخَصُ فِيهِ ٱلْأَبْصَـٰرُ
اور تم ہرگز یہ نہ سمجھو کہ اللہ ظالموں کے اعمال سے غافل ہے، وہ تو انہیں صرف اس دن تک مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
(ابراہیم 42)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ظلم خواہ دنیا میں وقتی طور پر چھپا رہے، لیکن اللہ کے ہاں وہ محفوظ ہے، اور قیامت کے دن ظالموں کا حساب سختی سے لیا جائے گا۔

ایک اور جگہ فرمایا

فَكُبْكِبُوا۟ فِيهَا هُمْ وَٱلْغَاوُۥنَ ۝وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ۝ قَالُوا۟ وَهُمْ فِيهَا يَخْتَصِمُونَ ۝ تَٱللَّهِ إِن كُنَّا لَفِى ضَلَـٰلٍۢ مُّبِينٍ ۝ إِذْ نُسَوِّيكُم بِرَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ۝
پھر وہ (سب) جہنم میں اوندھے ڈال دیے جائیں گے، وہ اور گمراہ کرنے والے، اور ابلیس کے تمام لشکر۔ وہ اس میں آپس میں جھگڑتے ہوئے کہیں گے اللہ کی قسم! ہم کھلی گمراہی میں تھے، جب ہم تمہیں ربّ العالمین کے برابر سمجھتے تھے۔
( الشعراء 94تا98)

یہ ظالموں کا انجام ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، ان پر ظلم کرتے ہیں یا شرک و کفر کی راہ پر چلاتے ہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ جہنم میں داخل کیے جائیں گے اور وہاں پشیمانی اور جھگڑوں کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

أَلَا لَعْنَةُ ٱللَّهِ عَلَى ٱلظَّـٰلِمِينَ
خبردار! اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر!
( ہود 18)

یہ لعنت اللہ کی ناراضی اور اس کی رحمت سے محرومی کا اعلان ہے۔ ظلم صرف جسمانی یا مالی نہیں، بلکہ جھوٹ، حق دبانا، کفر و شرک، اور نافرمانی بھی ظلم میں شمار ہوتا ہے۔

الغرض قرآن کے مطابق ظلم کرنے والوں کا انجام دنیا میں رسوائی، دل کا اندھا پن، اور آخرت میں جہنم کی سزا ہے۔ وہ اللہ کی رحمت سے دور، اس کے غضب کے مستحق، اور لعنت زدہ کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عدل کو پسند کرتا ہے اور ہر مظلوم کو ظالم سے نجات دلانے کا وعدہ کرتا ہے، اگرچہ بظاہر دیر ہو۔ لہٰذا ظلم سے بچنا اور مظلوم کا ساتھ دینا ایمان کی علامت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

قرآن میں دلوں کے سکون کا ذریعہ کس چیز کو قرار دیا گیا ہے؟قرآن میں دلوں کے سکون کا ذریعہ کس چیز کو قرار دیا گیا ہے؟

اللَّهُ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں دلوں کے سکون اور اطمینان کا ذریعہ ذکرُ اللّٰہ یعنی اللہ کا یاد کرنا قرار دیا ہے۔ دنیا کی خواہشات، مال، شہرت یا طاقت

اصحاب کہف کے کتے کا ذکر قرآن میں کیوں آیا؟ “وَكَلْبُهُم” کے ذکر سے ہمیں جانوروں کی کیا اہمیت سمجھ آتی ہے؟اصحاب کہف کے کتے کا ذکر قرآن میں کیوں آیا؟ “وَكَلْبُهُم” کے ذکر سے ہمیں جانوروں کی کیا اہمیت سمجھ آتی ہے؟

قرآنِ مجید میں اصحابِ کہف کے کتے کا ذکر واضح انداز میں اور قابلِ غور سیاق و سباق کے ساتھ آیا ہے۔ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌۭ ذِرَاعَيْهِ بِٱلْوَصِيدِاور ان کا کتا دہلیز