اسلام میں گواہی ایک مقدس ذمہ داری ہے، اور جھوٹی گواہی دینا یا کسی مفاد کی خاطر گواہی کو چھپانا ایک سنگین گناہ ہے۔ قرآن اور سنت میں اس عمل کی سخت مذمت کی گئی ہے، اور اسے انصاف کے تقاضوں کے خلاف اور اللہ کی ناراضگی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ جھوٹی گواہی دینا یا گواہی چھپانا ایک بہت بڑا گناہ ہے جو دنیا اور آخرت میں نقصان کا سبب بنتا ہے۔ سچی گواہی دینا اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کا ذریعہ ہے، جبکہ جھوٹی گواہی دینا انسان کو اللہ کے غضب اور جہنم کی طرف لے جا سکتا ہے۔ لہٰذا، گواہی دیتے وقت صرف حق اور انصاف کو مدنظر رکھنا چاہیے، چاہے وہ کسی بھی قیمت پر ہو۔ فرمایا
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاۗءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا
اے ایمان والو ! انصاف قائم کرنے والے ہو جاوٴاللہ کے لیے گواہ بن کر خواہ یہ (گواہی) تمھارے اپنے یا والدین کے یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو اگر (جس کے خلاف گواہی دی جا رہی ہے) کوئی مالدار ہو یا محتاج پس (ہر حال میں) اللہ اُن دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے تو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو کہ تم عدل نہ کرو اور اگر تم بات میں ہیر پھیر کرو یا (گواہی دینے سے) مُنھ پھیر لو تو بےشک اللہ اُس سے خوب باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔
(النساء – 135)
جھوٹی گواہی کے اثرات
معاشرتی نقصان
جھوٹی گواہی انصاف کے نظام کو خراب کرتی ہے۔
بے گناہ لوگ سزا پاتے ہیں، اور مجرم بچ نکلتے ہیں۔
معاشرے میں بداعتمادی اور فساد پیدا ہوتا ہے۔
اخروی نقصان
جھوٹی گواہی دینے والا قیامت کے دن سخت عذاب کا سامنا کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جھوٹے اور فاسق قرار دیا ہے۔