اسلام میں چوری ایک سنگین جرم ہے، اور قرآن و سنت میں اس کی سزا واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ چوری کی سزا کا بنیادی مقصد معاشرتی نظم و ضبط کو قائم رکھنا، لوگوں کے مال کی حفاظت کرنا، اور جرم کو روکنا ہے۔
قرآن کی روشنی میں چوری کی سزا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ
اور چور، خواہ مرد ہو یا عورت، ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کے کیے کا بدلہ ہے، اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔
(سورة المائدة 38)
اہم نکات
یہ حکم چور کے لیے ہے جب جرم ثابت ہو جائے۔
یہ سزا اس وقت دی جائے گی جب تمام شرائط پوری ہوں (جیسا کہ نیچے بیان کیا گیا ہے)۔
سزا دینے کا مقصد جرم کو روکنا اور معاشرے میں امن قائم کرنا ہے۔
چوری کی سزا (ہاتھ کاٹنا) صرف اس وقت دی جاتی ہے جب کچھ مخصوص شرائط پوری ہوں
مسروقہ مال کی مالیت
چوری شدہ مال کی مقدار شریعت میں متعین حد (چوتھائی دینار یا اس کے برابر) سے زیادہ ہو۔
مال محفوظ جگہ سے چوری کیا گیا ہو
اگر مال کسی محفوظ جگہ (جیسے گھر یا دکان) سے چوری کیا گیا ہو، تو یہ حد جاری ہوتی ہے۔
ثبوت کی موجودگی
چوری ثابت کرنے کے لیے
چور نے خود اعتراف کیا ہو۔
یا کم از کم دو عادل گواہ موجود ہوں۔
مال کا شرعی مالک ہونا
چوری کیا گیا مال کسی جائز مالک کی ملکیت ہونا چاہیے۔
مجبوری یا بھوک کی حالت نہ ہو
اگر کوئی شخص بھوک یا انتہائی مجبوری کے سبب چوری کرے، تو حد جاری نہیں ہوگی۔ اس کے بجائے حکام اس کی مدد کریں گے۔
اسلام میں سزا کے ساتھ ساتھ توبہ، اصلاح، اور معافی کے لیے بھی گنجائش رکھی گئی ہے تاکہ مجرم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکے اور دوبارہ جرم نہ کرے۔