پیغمبر انسان ہی ہو اس میں کیا حکمت ہے؟

یہ بہت گہری اور فکر انگیز ہے۔ آئیے پہلے بنی اسرائیل (الإسراء) کی آیت 86 کو دیکھتے ہیں

وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِۦ عَلَيْنَا وَكِيلًا
اور اگر ہم چاہیں تو وہ (وحی) جسے ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے، بالکل لے جائیں، پھر تم اس کے لیے ہمارے خلاف کوئی وکیل (نگہبان یا مددگار) نہ پاؤ گے۔

اآخر اللہ نے کیوں فرمایا کہ اگر ہم چاہیں تو قرآن واپس لے لیں؟
دراصل اللہ تعالیٰ یہ بات ایک تنبیہ، عبرت اور مقامِ توجہ کے طور پر فرما رہے ہیںٓ کہ

قرآن اللہ کا خالص فضل ہے، تمہارا حق نہیں
اللہ یہ احساس دلا رہے ہیں کہ قرآن تم پر ہماری خاص مہربانی اور رحمت ہے، ہم چاہیں تو اُسے واپس بھی لے سکتے ہیں۔
یعنی قرآن اللہ کی طرف سے ایک عطیہ ہے، دعویٰ کا مقام نہیں۔

اس میں نبی ﷺ کی بشری عاجزی کا اظہار ہے۔
اللہ نبی ﷺ کو بھی یاد دلا رہے ہیں کہ اگر ہم نہ چاہتے تو نہ تم پر قرآن نازل ہوتا، اور نہ تم اس علم و حکمت کے حامل ہوتے۔
یہ بات نبی ﷺ کی عصمت، علم، اور اختیار کی نفی نہیں، بلکہ اللہ کی عطا پر توجہ ہے جو کہ نبوت کی حقانیت پر بہت عمدہ دلیل ہے کہ یہ ہمارا پیغمبر قرآن خود نہیں گھڑتا جیسا تمہارا باطل زعم ہے۔

مخاطب دراصل کفار اور منکرین ہیں
کفار قرآن کو جھٹلاتے تھے اس کا مذاق اُڑاتے یا تبدیل کرنے کی بات کرتے تھے۔
اللہ نے فرمایا تم نہیں جانتے کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے، اگر ہم چاہیں تو اسے واپس لے لیں پھر تم کہاں جاؤ گے؟

قرآن کی قدر کرنے کا پیغام ہے
یہ آیت ہمیں احساس دلاتی ہے قرآن کا ہونا اللہ کا احسان ہے اگر یہ ہم سے چھن جائے تو ہم کچھ بھی نہیں۔
لہٰذا اس کی پابندی، تلاوت، فہم، اور اطاعت ضروری ہے

یہی اسلوب قرآن کا اعجاز بھی ہے یہ آیت فکری جھٹکا دیتی ہے، دل کو جھنجھوڑتی ہے کہ اگر اللہ وحی بند کر دے، قرآن واپس لے لے، تو تم کہاں جاؤ گے؟ کیا کوئی اس کا بدل ہے؟

اس میں ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ قرآن نہ ہونے کا تصور بھی ہلا دینے والا ہے۔

یہ نعمت ہمیں ناشکری، غفلت یا ضد سے نہیں ملی بلکہ اللہ کی محض رحمت سے ملی ہے۔ اسے سنبھالنا، سیکھنا، عمل کرنا اور پھیلانا ہم پر فرض ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

جھگڑا کرنے والوں کو قرآن کس چیز کی دعوت دیتا ہے؟جھگڑا کرنے والوں کو قرآن کس چیز کی دعوت دیتا ہے؟

قرآنِ حکیم جھگڑا کرنے والوں کو فساد، غرور اور دشمنی سے بچنے اور صلح و اصلاح کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن اختلاف کو انسانی فطرت کا حصہ مانتا ہے، لیکن

کیا جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دے سکتا ہے؟کیا جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دے سکتا ہے؟

جی نہیں، جسے اللہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ یہ حقیقت قرآن مجید میں بارہا بیان ہوئی ہے کہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار