قرآنِ مجید نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کو ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا ہے، اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ سچے مؤمن وہی ہوتے ہیں جو سن کر اللہ کے حکم کو قبول کرتے ہیں، اور اس سے منہ نہیں موڑتے۔ یہی اسلامی عقیدے کی بنیاد ہے کہ بندہ اللہ کی بندگی اور رسول ﷺ کی پیروی میں جھک جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَطِيعُوا ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اس سے منہ نہ پھیرو جب کہ تم سن رہے ہو۔
(الأنفال 20)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ صرف سن لینا کافی نہیں، بلکہ سن کر عمل نہ کرنا دراصل منہ موڑنا ہے، جو نفاق اور کمزور ایمان کی علامت ہے۔ اطاعت صرف کسی ایک حکم کی نہیں، بلکہ مکمل دین کی ہونی چاہیے، جیسا کہ صحابہ کرامؓ کا عمل رہا۔
نبی کریم ﷺ کے زمانے میں جب کوئی حکم آتا، صحابہؓ فوراً اس پر عمل کرتے، چاہے وہ حکم کتنا ہی مشکل ہو۔ وہ کبھی یہ نہ کہتے کہ ہم نے سن تو لیا ہے مگر بعد میں کریں گے، یا اپنے حالات دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ یہی اس آیت کا پیغام ہے۔ ایمان والا وہی ہے جو سن کر فوراً مانے، اور اطاعت میں کوتاہی کو ایمان کے خلاف سمجھے۔
لہذا، قرآن کا اصول یہ ہے کہ ایمان کا پہلا ثبوت اللہ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت ہے، اور جو اس سے منہ موڑتا ہے، وہ ایمان کے معیار پر پورا نہیں اترتا، چاہے وہ زبان سے کچھ بھی کہے۔