وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ – کا مفہوم کیا ہے؟

قرآنِ مجید کی یہ آیت توحید خالص اور عبادت کی اصل روح کو بیان کرتی ہے، جس کے بغیر دین کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ یہ آیت اس حقیقت پر زور دیتی ہے کہ انسان کا اصل مقصد زندگی صرف اور صرف اللہ کی بندگی ہے، وہ بھی خالص نیت اور تمام باطل جھوٹے واسطوں سے ہٹ کر۔ عبادت اگر ریاکاری، شرک، یا دنیاوی مفادات سے آلودہ ہو جائے تو وہ ناقبول ہو جاتی ہے، چاہے وہ صلوۃ ہو، روزہ ہو یا کوئی اور نیکی۔

وَمَآ أُمِرُوٓا۟ إِلَّا لِيَعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ حُنَفَآءَ وَيُقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ ٱلْقَيِّمَةِ
اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے، یکسو ہو کر، اور صلوۃ قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، اور یہی سیدھا دین ہے۔
(البینۃ 5)

یہ آیت ایک مکمل فکری اور عملی منشور فراہم کرتی ہے عبادت صرف اللہ کے لیے ہو، اخلاص کے ساتھ ہو، اور انسان اپنی سوچ، نظریہ اور طرزِ عمل میں مکمل طور پر اللہ کی طرف یکسو ہو۔ مخلصین له الدین یعنی دین کو صرف اللہ کے لیے خالص کر دینا، اس میں شرک، ریاکاری، یا کسی اور ہستی کی رضا شامل نہ ہو۔ یہی خالص توحید ہے جس کی دعوت ہر نبی نے دی۔

یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ایمان، عبادت، اور دین کا ظاہری ڈھانچہ اُس وقت تک معتبر نہیں ہوتا جب تک اس کی بنیاد اخلاص نہ ہو۔ نیکی کا وزن، اُس نیت سے طے ہوتا ہے جس کے تحت وہ انجام دی گئی ہو۔ اللہ صرف وہ عمل قبول کرتا ہے جو خالصتاً اس کی رضا کے لیے ہو، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ ایک ایسا اصولی اعلان ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دین کی روح، اخلاص اور توحید ہے۔ انسان کی کامیابی صرف انہی اعمال پر ہے جو اللہ کے لیے خالص ہوں۔ یہ آیت ایک دعوت ہے ہر اس دل کے لیے جو سچائی کی تلاش میں ہے کہ اپنی نیت، اپنے عمل، اور اپنی زندگی کا مرکز صرف اللہ کو بنا لو۔ یہی حقیقی دین ہے، اور یہی کامیابی کا راستہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے آغاز میں اللہ نے ان کو کیا اسباق سکھائے؟موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے آغاز میں اللہ نے ان کو کیا اسباق سکھائے؟

موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا آغاز ایک عظیم الشان واقعے سے ہوا، جس میں اللہ تعالیٰ نے براہِ راست ان سے “وادئ مقدس طُویٰ” میں خطاب فرمایا۔ اس ابتدائی