قرآنِ مجید کی آیت وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ… میں اللہ تعالیٰ ایک عظیم حقیقت کی وضاحت فرماتا ہے کہ توحید ہی تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت اور اصل پیغام تھا۔ اس آیت کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ کسی نبی کو بھیجنے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ وہ اپنی قوم کو صرف اللہ کی عبادت کی طرف بلائے، اور ہر قسم کے شرک، طاغوت اور باطل عقائد سے روکے۔
تاریخِ نبوت میں ہر رسول نے اپنی قوم کو ایک ہی عقیدہ سکھایا اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی۔ چاہے وہ نوح علیہ السلام ہوں یا ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام ہوں یا عیسیٰ علیہ السلام، سب نے یہی کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، بس اسی کی عبادت کرو۔ قرآن ان تمام دعوتوں کو ایک لڑی میں پرو کر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دینِ حق ہمیشہ سے ایک رہا ہے، اور وہ ہے توحید۔
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِىٓ إِلَيْهِ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنَا۠ فَٱعْبُدُونِ
اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ بے شک میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔
(الأنبیاء 25)
یہ آیت اس بات کا قطعی اعلان ہے کہ ہر نبی کی پہلی تعلیم لا إله إلا الله تھی۔ اس تعلیم کے بغیر نہ کوئی نجات ہے، نہ عمل کا وزن ہے، اور نہ ہی آخرت کی کامیابی۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ دین اسلام کوئی نیا دین نہیں، بلکہ وہی دین ہے جو ہر نبی لے کر آیا۔ انبیاء کی دعوت مختلف قوموں میں آئی، مگر پیغام ایک تھا اللہ کو واحد معبود مان کر صرف اسی کی بندگی کرنا۔ قرآن ہمیں اس توحیدی دعوت سے جوڑتا ہے جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک قائم رہے گی۔