واقعہ معراج کا مقصد اور اسکا پیغام کیا تھا؟

واقعۂ معراج کو ایک عظیم روحانی حقیقت اور نبی کریم ﷺ کے شرفِ قرب کا بیان قرار دیا گیا ہے۔ یہ واقعہ نبی ﷺ کے لیے نہ صرف تسلی و اطمینان کا ذریعہ تھا بلکہ امت کے لیے توحید، آخرت، اور عبادت کی حقیقت کا گہرا درس بھی۔ واقعۂ معراج کوئی خواب یا محض تصور نہیں، بلکہ جسمانی و روحانی سفر تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو وہ نشانیاں دکھائیں جو عام انسانی آنکھوں کی رسائی سے باہر ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا
سُبْحَانَ ٱلَّذِىٓ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِۦ لَيْلًۭا مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْأَقْصَا ٱلَّذِى بَـٰرَكْنَا حَوْلَهُۥ لِنُرِيَهُۥ مِنْ ءَايَـٰتِنَآ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی، جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
(الإسراء: 1)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ معراج کا مقصد نبی کریم ﷺ کو “آیاتِ ربانی” یعنی اللہ کی نشانیاں دکھانا تھا۔ یہ سفر اس وقت ہوا جب نبی ﷺ نے طائف میں سخت اذیتیں برداشت کیں اور مکہ کے کفار کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کیا۔ اس موقع پر اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو اپنے قرب کا سب سے اعلیٰ درجہ دیا تاکہ دنیا کو بتا دے کہ اللہ اپنے بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔

سفرِ معراج کے دوران نبی کریم ﷺ نے آسمانی طبقات، جنت و دوزخ، مختلف انبیاءؑ سے ملاقات، فرشتوں کی اقسام، اور امت کے اعمال کی جھلک دیکھی۔ اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے پچاس صلوۃیں فرض کیں، جو بعد میں پانچ رہ گئیں مگر اجر وہی رکھا۔ یہ صلوۃ ہی بندے کی معراج قرار دی گئی، جو ہمیں روزانہ اللہ سے تعلق مضبوط بنانے کا ذریعہ عطا ہوئی۔

جس طرح ماضی کی قوموں نے انبیاء کی نشانیوں کے باوجود انکار کیا، ویسے ہی معراج کو بھی کفارِ مکہ نے جھٹلایا، مگر ابوبکر صدیقؓ نے بلا تردد تصدیق کی، اور “صدیق” کا لقب پایا۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ایمان بالغیب، توکل اور اللہ سے تعلق کی مضبوطی ہی اصل کامیابی ہے۔

لہٰذا، واقعۂ معراج ہمیں اللہ کے قرب، صلوۃ کی اہمیت، اور باطنی ترقی کا درس دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی نبی ﷺ کی سنت پر چلتے ہوئے صلوۃ کو اپنی معراج بنائیں، اور اللہ کی نشانیوں پر غور کرکے اپنی زندگی کو توحید و اخلاص سے مزین کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ – میں اللہ کا کیا وعدہ ہے؟وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ – میں اللہ کا کیا وعدہ ہے؟

قرآنِ مجید مؤمن مردوں اور عورتوں کو آخرت کی حقیقی کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے، اور ان کے ایمان، اعمال، تقویٰ اور صبر کے بدلے ابدی نعمتوں کا وعدہ کرتا

کونسے لوگوں کو جہنم کی مہمانی کا مستحق قرار دیا ہے اور کیوں؟کونسے لوگوں کو جہنم کی مہمانی کا مستحق قرار دیا ہے اور کیوں؟

اللہ تعالیٰ نے سورہ الکہف آیت 102 میں جن لوگوں کو جہنم کی مہمانی (نُزُلًا) کا مستحق قرار دیا ہے۔ فرمایا أَفَحَسِبَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَن يَتَّخِذُواْ عِبَادِى مِن دُونِىٓ أَوْلِيَآءَ

انبیاء نے غلو فی الدین (حد سے بڑھنے) سے کس طرح روکا؟انبیاء نے غلو فی الدین (حد سے بڑھنے) سے کس طرح روکا؟

قرآن مجید کے مطابق تمام انبیاء نے غلو فی الدین یعنی دین میں حد سے تجاوز کرنے سے سختی سے روکا۔ انبیاء کی تعلیمات کا بنیادی اصول اعتدال اور میانہ