نیک نیت سے بدعت کرنا معاف ہے؟

نیک نیت سے بدعت کرنا بھی معاف نہیں، بلکہ دین میں اضافہ کرنے کی جسارت ہے، جو بدترین گمراہی ہے۔ شریعت نیت کے ساتھ ساتھ عمل کی مطابقت بھی چاہتی ہے۔ اگر نیت اچھی ہو لیکن عمل نبی ﷺ کی سنت کے خلاف ہو، تو وہ مردود (رد کیا گیا) عمل ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

“من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو ردّ”
جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے طریقے پر نہیں، وہ مردود ہے
(صحیح مسلم، حدیث: 1718)

یہ حدیث صریح طور پر واضح کرتی ہے کہ نیت کا اخلاص عمل کو قبول نہیں کراتا جب تک وہ سنت کے مطابق نہ ہو۔

قرآن میں فرمایا کہ

قُلۡ أَتُعَلِّمُونَ ٱللَّهَ بِدِينِكُمۡۚ
کیا تم اللہ کو اس کے دین کے بارے میں سکھاتے ہو؟
(سورۃ الحجرات: 16)

یہ ان لوگوں کی رد ہے جو “نیکی” کی نیت سے دین میں نئی رسومات، اذکار یا اعمال گھڑ لیتے ہیں۔

نیت نجات کا ذریعہ کب ہے؟
نیت اسی وقت نفع دیتی ہے جب عمل سنت کے مطابق ہو۔

اگر کوئی شخص قبر پر چادر چڑھائے، یا گیارہویں، میلاد، اجتماعی درود وغیرہ کرے کہ “نیت اچھی ہے”، تو وہ بدعت ہے، اور نیت اسے نجات نہیں دلا سکتی۔

اسلام نبی ﷺ کی مکمل اور محفوظ شریعت ہے، اس میں اپنی طرف سے کچھ شامل کرنا، چاہے نیت کتنی ہی “نیک” کیوں نہ ہو، اللہ کے دین پر اعتراض ہے۔ لہٰذا نیت کی نیکی تبھی مفید ہے جب عمل بھی سنتِ رسول کے تابع ہو، ورنہ وہ بدعت ہے اور اس کا انجام جہنم کی طرف لے جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے

“وكل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار”
اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم کی آگ ہے۔
(صحیح مسلم: 867)

جواب لکھیں / رائے دیں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

قرآن نبیوں کی اطاعت اور عبادت میں کیا فرق بیان کرتا ہے؟قرآن نبیوں کی اطاعت اور عبادت میں کیا فرق بیان کرتا ہے؟

قرآنِ مجید نے نبیوں کی اطاعت کو ایمان کا حصہ قرار دیا، جبکہ عبادت کو صرف اللہ کے لیے خاص کیا ہے۔ انبیاء علیہم السلام