نوح علیہ السلام نے جب اپنے مشرک بیٹے (جس نے کشتی میں سوار ہونے سے انکار کر دیا تھا) کے لیے دعا کی ۔ کہ وہ میرے اہل (گھر والوں) میں سے ہے، لہٰذا اسے بچا لیا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے سختی سے اس دعا کو رد کیا اور واضح فرمایا کہ وہ تمہارا اہل نہیں، کیونکہ اس کا عمل غیر صالح ہے۔
نوح علیہ السلام کی دعا
وَنَادَىٰ نُوحٌۭ رَّبَّهُۥ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ٱبْنِى مِنْ أَهْلِى وَإِنَّ وَعْدَكَ ٱلْحَقُّ ۖ وَأَنتَ أَحْكَمُ ٱلْحَـٰكِمِينَ
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب! میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے، اور یقیناً تیرا وعدہ سچا ہے، اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
(ھود – 45)
اللہ کا جواب
قَالَ يَـٰنُوحُ إِنَّهُۥ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُۥ عَمَلٌۭ غَيْرُ صَـٰلِحٍۢ فَلَا تَسْـَٔلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌ ۖ إِنِّىٓ أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ ٱلْجَـٰهِلِينَ
(اللہ نے فرمایا) اے نوح! وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے، یقیناً اس کا عمل غیر صالح ہے، لہٰذا مجھ سے وہ بات نہ مانگ جس کا تجھے علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ نادانوں میں سے نہ ہو۔
(ھود – 46)
اللہ تعالیٰ نے نسب (رشتہ داری) کو عملِ صالح سے مشروط کر دیا۔ صرف بیٹا ہونا نجات کی ضمانت نہیں۔ جب تک وہ ایمان والا اور نیکوکار نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو تنبیہ کی کہ ایسی دعا نہ مانگو جو علم و حکمت کے خلاف ہو۔