قرآن مجید کے مطابق نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو سب سے پہلے توحید یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت اور شرک سے مکمل اجتناب کی طرف بلایا۔ ان کی دعوت کی بنیاد یہی عقیدہ تھا کہ انسان صرف اپنے خالق کے سامنے جھکے اور تمام جھوٹے معبودوں، طاغوتی نظاموں اور موروثی شرک سے کنارہ کش ہو جائے۔ نوح علیہ السلام کی قوم بت پرستی، ظلم اور سرکشی میں مبتلا تھی، چنانچہ انہوں نے واضح الفاظ میں انحراف سے توبہ کرنے اور اللہ واحد کی بندگی اختیار کرنے کا حکم دیا۔
يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥٓ ۚ إِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍۢ
(الأعراف 59)
اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
یہ آیت نوح علیہ السلام کی دعوت کا مرکز بیان کرتی ہے اللہ کی بندگی، اس کے سوا کسی کو معبود نہ بنانا، اور قیامت کے دن کی جواب دہی کو یاد رکھنا۔ ان کی دعوت صرف عبادتی توحید تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ ان کے اخلاق، معاملات اور معاشرت میں بھی اللہ کے حکم کی اطاعت چاہتے تھے۔ انبیاء کی دعوت ہمیشہ مکمل اطاعتِ الٰہی اور ہر قسم کے طاغوت سے بیزاری پر مبنی رہی ہے۔
نوح علیہ السلام نے طویل عرصے تک اپنی قوم کو یہی پیغام دیا کبھی رات کو، کبھی دن میں، کبھی علانیہ اور کبھی چھپ کر مگر قوم نے انکار کیا، اور اس کی سرکشی کا انجام اللہ کے عذاب کی صورت میں آیا۔ لیکن ان کے اس پیغام نے تاریخ میں یہ حقیقت نقش کر دی کہ ہر نبی کی دعوت کا آغاز توحید سے ہی ہوتا ہے۔
نوح علیہ السلام کی دعوت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر ہم ہدایت کے طلبگار ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے دل و دماغ سے ہر قسم کے شرک، ریا، اور باطل کی بندگی کو نکالنا ہوگا۔ صرف اللہ کی اطاعت ہی انسان کو روحانی آزادی، قلبی سکون، اور دائمی نجات کی طرف لے جاتی ہے۔ انبیاء کی دعوت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سچا دین وہی ہے جو توحید پر قائم ہو۔