اسلام میں قتال (جہاد فی سبیل اللہ) کا حکم کب، کن حالات میں، اور کس قوت کے ساتھ فرض ہوتا ہے، یہ قرآن و سنت میں واضح ہے۔ نفری کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو اطمینان دلایا ہے کہ کمی تعداد کے باوجود ایمان، تقویٰ، اور صبر کی برکت سے دشمن پر غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ حَرِّضِ ٱلْمُؤْمِنِينَ عَلَى ٱلْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَـٰبِرُونَ يَغْلِبُوا۟ مِئَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّا۟ئَةٌۭ يَغْلِبُوٓا۟ أَلْفًۭا مِّنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌۭ لَّا يَفْقَهُونَالآنَ خَفَّفَ ٱللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًۭا ۖ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّا۟ئَةٌۭ صَابِرَةٌۭ يَغْلِبُوا۟ مِئَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌۭ يَغْلِبُوا۟ أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ
اے نبی! مؤمنوں کو قتال پر ابھاریے، اگر تم میں بیس صبر والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے، اور اگر تم میں ایک سو ہوں تو وہ ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے کیونکہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔
اب اللہ نے تم سے بوجھ ہلکا کر دیا کیونکہ اس نے جان لیا کہ تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں ایک سو صابر ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے، اور اگر تم میں ایک ہزار ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
(الانفال – 65، 66)
پہلا مرحلہ (پہلے حکم)
ایک مسلمان کو دس کافروں کا مقابلہ کرنا لازم تھا اگر وہ صبر اور تقویٰ پر قائم ہو۔
تخفیف (بعد کا حکم)
اللہ نے رحمت و حکمت سے حکم نرم کر دیا، اب ایک مسلمان پر دو کافروں کا مقابلہ فرض ہوا۔
نفری کی شرط
جب مسلمانوں کی تعداد دشمن کے مقابلے میں ایک نصف ہو (1/2)، تو قتال فرض ہے۔
اگر مسلمانوں کی تعداد اس سے بھی کم ہو، تو قتال فرضِ عین نہیں رہتا، البتہ دفاعی قتال جاری رہ سکتا ہے۔